بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے آٹھ جون بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے کی مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ جون دو ہزار نو کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی سینئر وائس چئیرمین ذاکر مجید بلوچ کو سکیورٹی فورسز نے ماورائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔ آج انکی اغوا نما گرفتاری کو گیارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے حوالے نہ خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی عدالت یا تھانے میں پیش کیا گیا ہے۔ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی خود پاکستان سمیت عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور انہیں سیاسی سرگرمیوں کے پاداش میں گیارہ گیارہ سال حبس بے جا میں رکھ کر خاندان کو اذیت میں مبتلا کرنا ہر قسم کی ریاستی و بین الاقوامی قوانین اور انسانیت کی توہین ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں عام عوام اور سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کا معاملہ سنگین رخ اختیار کرچکا ہے۔ آئے روز فوجی آپریشنز میں لوگوں کی جبری گمشدگی کے واقعات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لاپتہ افراد کو نہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی انکے جرائم کےمتعلق لواحقین کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ بزور طاقت انہیں اٹھا لیا جاتا ہے اور تشدد کے بعد یا تو انکی مسخ شدہ لاش پھینکی جاتی ہیں یا انہیں ابنارمل حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے جو انتہائی تشویشناک عمل ہے۔ ذاکر مجید سمیت تمام سیاسی کارکنان اور دیگر لاپتہ افراد کی زندگی حوالے شدید تشویش ہے۔ ہم بارہا یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن ریاست اور اسکے ادارے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے جبری گمشدگیوں میں اضافہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں میں بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگیوں میں تیزی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سیاسی کارکنان سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہے، جبری گمشدگی کی وجہ سے بلوچستان میں سیاسی جمود کی سی کیفیت کا عالم ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی عائد کی گئی ہے اور بلوچ طلبہ کی سیاسی تنظیم بی ایس او آزاد پر پابندی عائد کرکے انکے کارکنان اور لیڈران کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد شہید کیا جارہا ہے۔ ذاکر مجید بلوچ، ڈاکٹر دین محمد، رمضان بلوچ، زاہد بلوچ، غفور بلوچ اور شبیر بلوچ سمیت دیگر ہزارہا افراد جبری گمشدگی کا شکار ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ تنظیم نے 2017ء کو بلوچ مِسنگ پرسنز جیسے سنگین مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرنے اور اس آواز کو مزید موثر و توانا کرنے کے لیے تنظیمی سطح پر “آٹھ جون” کو بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے قرار دیا۔ اس سال بھی تنظیم بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے کی مناسبت سے آگائی مہم چلائے گی جس میں جبری گمشدگی کے شکار تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے آواز اُٹھایا جائے گا۔ تنظیم تمام سیاسی، سماجی و انسانی حقوق کے تنظیموں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے کی مناسبت سے آگائی مہم کا حصہ بنے اور پاکستان میں جبری گمشدگی کے شکار لوگوں کے لیے آواز اُٹھائے اور اس سنگین مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔