بلوچستان اور نیکرو وائلنس
تحریر: احسان میر
دی بلوچستان پوسٹ
فاتح کا یہ پُرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ لاشوں کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد فاتح نےہمیشہ دشمنوں کی لاشوں کی تذلیل و تحضیک کی ہے۔ یونان کے ہیروہرکولیس نے ٹروجن جنگ میں کامیابی کے بعد اپنے رتھ کے پیچھے ہیکٹر کے جسم کو گھسیٹ کر اپنے سپاہیوں کا مورال بُلند کرنے کی کوشش کی۔
سَنہ دو ہزار بارہ میں امریکی فوجیوں نے تین خودکش بمباروں کی خون آلود لاشوں کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں، جس میں فاتح سپاہی حملہ آوروں کے بکھرے ہوئے جسمانی اعضاٰء کو تھام کر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ یہ تصویریں عالمی میڈیا پر زیر بحث آئیں جس پر اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور اس عمل کو “نفرت انگیز” قرار دیا تھا، دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
1700 کی بے شمار شواہد موجود ہیں جب ریڈ انڈینز اپنے دشمنوں کے جسمانی اعضاء نمود و نُمائش کے لیے لوگوں کو دکھاتے تھے، جس میں یہ واضح پیغام تھا کہ دشمن پر خونی فتح حاصل کیا گیا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے ریاستی و حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر جو مقامی لوگوں کو دکھائے جانے کے لیے، لیئے گئے تھے۔ جن میں وحشیانہ مجموعہ دکھایا گیا تھا، اس ہولناک اور خوفناک نمود ونمائش میں تشدد کا شکار سکڑتے سر اور جسم کے مختلف اعضاء دھوم دھام سے دکھائے گئے تھے۔
2020 میں ہی عالمِ انسانیت نے اسرائیلی فوجیوں کو نیکرووائیلنس کا مرتکب ہونے پر شدید مذمت کیا تھا، جس میں اسرائیلی فوجیوں نے محمد علی النعیم کی لاش کو بلڈوزر کے ذریعے کچل دیا تھا۔
لفظ نیکرووائلسنس اینتھروپولوجسٹ جیسن ڈی لیون کی کتاب ، لینڈ آف اوپن گریوز سے لیا گیا ہے، جس میں انہوں نے یہ اصطلاح میکسیکو سے امریکی سرحد عبور کرنے والے تارکین وطن کی لاشوں کے ساتھ ہونے والی بد سلوکی کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔
اپریل 2020 میں پروم بلوچستان کے علاقے میں ایک جنگ کے دوران مارے گئے 4 بلوچ نوجوانوں کی لاشوں کو گاڑی سے باندھ کر روڈوں پر گھسیٹا گیا۔ تاکہ دشمن کو خبردار کیا جاسکے کہ دیکھو ہم تمھارے ساتھ زندہ و مردہ حالتوں میں کیا کیا کر سکتے ہیں۔
جینیوا کنونشن کے مطابق ، مسلح تصادم کے دوران فریقین پر لازم ہے کہ وہ میتوں کو باعزت طریقے سے دفن کریں۔ اور اگر ممکن ہو تو اُس مذہب کی رسومات کے مطابق جس سے وہ تعلق رکھتا ہے اور اُن کی قبروں کا احترام کیا جائے اور ساتھ ہی قبروں کی نشاندہی کی جائے تاکہ اُس کی شناخت کیا جا سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔