بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی کٹس کی فراہمی کے لیے احتجاج کے دوران سول اسپتال سے مارچ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ پہنچے۔ جہاں پولیس نے مظاہرین کو روکا، جس پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان لفظی تکرار شروع ہوگئی، جس نے پرتشدد صورت حال اختیار کرلی۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔
پولیس تشدد اور ڈاکٹروں کی گرفتاری کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر یاسر خان خوستی نے دیگر ڈاکٹروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے کہا کہ ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں، ایمرجنسی اور ٹراما کو بند کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حفاظتی کٹس کے بغیر ڈاکٹر اور ان کے اہلخانہ کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں، ہمیں ضرروی سامان نہیں دیا جارہا اور حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم چین سے ڈاکٹر لے آئیں گے۔
ڈاکٹر یاسر خان خوستی نے کہا کہ احتجاج کرنے پر ہمارے 100 کے قریب ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا۔ ہمارے ڈاکٹر لاٹھی چارج کے باعث زخمی ہوئے ہیں، ہمیں دہشت گردوں کی طرح مارا گیا، حکومت جو کچھ کرتی ہے کرے ہم سروسز کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں۔
صحافی حامد میر نے کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹروں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دیکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ کوئٹہ میں پولیس طبی معاون اور ڈاکٹروں پر تشدد کررہی ہے جو صرف مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں معیاری طبی کٹس دیئے جائے تاکہ وہ کرونا سے متاثرہ لوگوں کو علاج کر سکیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن بلوچستان اسمبلی ثنا بلوچ نے اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر کہا کہ جس طرح پولیس کے ہاتھ میں ڈنڈے، وردی، بندوق اور گولیاں عوام سے نمٹنے کیلے فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹروں کو کرونا سے لڑنے کیلئے ماسک، حفاظتی وردی، PPEs اور حوصلہ، اعتماد و مکمل تعاون کی ضرورت ہے- لیکن بلوچستان میں ڈاکٹروں کو مسلسل اذیتوں کا سامنا ہے۔
جس طرح #پولیس کے ہاتھ میں #ڈنڈے، #وردی، #بندوق اور #گولیاں عوام سے نمٹنے کیلے فراھم کی جاتی ہیں۰
اسی طرح #ڈاکٹرز کو #کرونا سے لڑنے کیلے #ماسک #حفاظتی_وردی #PPEs اور #حوصلہ #اعتماد و مکمل تعاون کی ضرورت ہے-
لیکن #بلوچستان میں ڈاکٹروں کو مسلسل ازیتوں کا سامنا ہے- https://t.co/YfKxNnsvBT
— Sana Ullah BALOCH, MPA (@Senator_Baloch) April 6, 2020
ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے نجی ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے کہا ہے کہ ڈاکٹروں کا مریضوں کی خدمت اور علاج کرنے کی بجائے ہڑتال کرنا غیر اخلاقی ہے۔ یہ عمل طبی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ ہے جو بھی اجتماع کریگا ہم اسے گرفتار کریں گے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے عالمی سطح پر رائج سماجی دوری کے لائحہ عمل کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اب تک 50 ہزار این 95 ماسک، 32 ہزار سرجیکل ماسک، 25 ہزار دستانوں سمیت دیگر سامان شیخ زید ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے جبکہ این ڈی ایم کی جانب سے مزید آلات بھی فراہم کئے جارہے۔
لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کنٹریکٹ توسیع کے مسئلے کو سیاسی بنا رہے ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ نااہل صوبائی حکومت بلخصوص سیکرٹری صحت کے کرپشن کو چھپانے کے لئے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے پہلے یوم ڈاکٹر مناکر شعبدہ بازی کرکے ڈاکٹروں کو سلیوٹ پیش کی گئی اب ان ہی فورسز کے ذریعے ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا۔
خیال رہے ایک روز قبل تفتان جانے سے انکار پر 44 ڈاکٹروں کو معطل کر دیا گیا۔
حکومت بلوچستان کے فوکل پرسن برائے انسداد کرونا میر عمیر محمد حسنی کا کہنا تھا کہ حکومتی احکامات نہ ماننے پر 12 ڈاکٹر پہلے بھی معطل کئے گئے ہیں۔
بلوچستان میں گذشتہ روز نوول کورونا وائرس کے 6 نئے کیسز رپورٹ ہوئیں جس کے بعد کرونا وائرس کے کیسز کی مجموعی تعداد 191 ہوگئی۔
محکمہ صحت کے مطابق 191 کیسز میں 50 افراد جن میں 13 ڈاکٹر، 8 فورسز اہلکار اور محکمہ پی ڈی ایم اے کے 2 ملازمین شامل ہیں اور یہ تمام لوکل سطح کے کیسز ہیں۔