میڈیا آزادی کے لیے سرگرم صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ساں فرنٹیرز (بےسرحد رپورٹرز) نے مختلف ممالک کی میڈیا آزادی سے متعلق سال 2020 کی درجہ بندی پر رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان نے گذشتہ برس کی نسبت تین درجے کھوئے ہیں۔
پیرس میں قائم اس تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا، جو انتہائی جاندار رہنے کی ایک طویل روایت رکھتا ہے، ملک کی ’ڈیپ سٹیٹ یا گہری ریاست‘ کے لیے ترجیحی ہدف بن گیا ہے۔
تنظیم کے مطابق تین درجے نیچے آکر اب پاکستان 180 ممالک میں 145 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ اس بارے میں حکومت پاکستان کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ تنظیم یہ درجہ بندی ہر سال جاری کرتی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان سے متعلق کہا گیا ہے کہ جولائی 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد سے فوجی ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے اثر و رسوخ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ’بہت سنگین معاملات میں فوج نے دباؤ کو استعمال کرنے کے لیے متعدد طریقے استعمال کیے ہیں۔ اخباروں کی تقسیم خصوصاً ممتاز روزنامہ ڈان کی ترسیل میں خلل پڑا ہے۔
میڈیا اداروں کو اشتہار واپس لینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے نمائندوں کو ائیر ٹائم دینے والے ٹی وی چینلز کے سنگنل بند کر دیئے گئے ہیں۔ اور صحافیوں کو ہراساں کیا گیا ہے۔
روایتی میڈیا کو قابو میں لانے کے بعد اس رپورٹ کا الزام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مواد کو کنٹرول کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت آن لائن ’ریگولیشن‘ کو سخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا واضح مطلب سینسرشپ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس دوران صحافیوں کو خطے میں خطرہ لاحق ہے، خاص طور پر مغربی صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جہاں سکیورٹی فورسز اور مسلح شدت پسندوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں صحافی پھنس جاتے ہیں۔
2019 میں چار صحافیوں اور ایک بلاگر کو ان کی رپورٹنگ کے سلسلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اور، جیسا کہ کم از کم ایک دہائی سے ہوتا آرہا ہے صحافیوں کے خلاف جرائم پر کسی کو سزا نہیں دی جاتی ہے۔
اس سے قبل رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈر (آر ایس ایف) نے پاکستان میں میڈیا پر پابندیوں اور سینسرشپ کے خلاف وزیراعظم عمران خان کو گذشتہ برس جولائی میں ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
سیکریٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلوئر کی جانب سے لکھے گئے آر ایس ایف کے خط میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا، ’دورہ امریکہ کے دوران جب آپ سے پریس پر پابندیوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ پاکستانی پریس دنیا کا آزاد ترین پریس ہے اور یہ کہنا کہ پاکستانی پریس پر پابندیاں ہیں، ایک مذاق ہے۔