میرے قلم کا سر قلم کردیں
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بنی نوع انسان نے قلم اور تیغ کو ہمیشہ اپنی حفاظت کیلئے ورتنا کی ہے۔ دانش کا پیمانہ اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ تلوار اپنی جگہ و صحیح وقت پر استعمال ہونے کا ہنر جان چکی ہے اور قلم اپنی تیز نوک سے قبضہ گیریت کی کارستانیوں کو سفید کاغذ پر لکھ کر شعور و ارادے سے محکومی کے خلاف مزاحمت کا طبل جنگ بجا چکی ہے۔
احساس و جذبات کچھ بھی ہوں، پسند و ناپسند سے بالا ہوکر قلم افشاں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ شمشیر و برع کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا شاید وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، تاہم اگر کوئی بات کرے تو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے بات چیت ہونی چاہئے۔ جو باشعور ہیں وہ ان دونوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔ وقت و حالات، قومی شعور کو فیصلہ کن مرحلہ پر امتحان سے گذارتی ہیں۔ سوالنامہ کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ قومی دفاع کیلئے آلات و راستہ کون سا چننا ہے۔ غیرت مند و باعقل دونوں میں سے کسی ایک کو چننے میں دیر نہیں کرتے ہاں البتہ جب جہاں جسکی ضرورت ہو، قومی دفاع کی صورتحال میں کسی ایک کا یا دونوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ظالم و جابر، حملہ آور نے قومی سوال کو منزل تک پہنچانے والے خیابانوں کو کھبی نہیں بخشا، جب جہاں موقع ملا انکو قتل گاہ میں تختہ دار پر لٹکایا۔ وطن کا ہر باشعور ، ادیب ، دانشور، لکھاری یہ اعلان سنا رہا ہے کہ مجھے خاموش کرنے کیلئے میرے قط کا سر قلم کردیں۔
بلوچ وطن پر قبضے کی رواداد جبر کی داستانوں کی اب تک نہ ختم ہونے والی پنواڑوں میں سے ایک دلخراش تاریخ ہے۔ اس حلقہ بگوشی کے خلاف بلوچ قوم نسل در نسل قربانی کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہے۔ امید افزاء بات یہ ہے کہ یہ کہانی آج بھی اتنی تر و تازہ لگتی ہے جتنی 1839 میں خان محراب خان کا انگریز کے خلاف بغاوت و شہادت کی تاریخ ہے۔ یہ پیغام آج بھی ہر نوجوان اتنے ہی غور سے سنتا ہے جتنا آغا عبدلکریم کے ہمفکر ساتھیوں نے مارچ 1948 میں سنی تھی۔ اس قافلے میں شامل ہونے کیلئے آج بھی مادر وطن کے سچے فرزندوں کے دل اتنی ہی تیزی سے دھڑکتے ہیں، جتنی بابو نوروز کے ساتھیوں کے دل جذبہ آزادی سے 1957 میں دھڑکتے تھے۔ آج بھی شہید اکبر خان کی اونٹنی اسکے نظریاتی ساتھیوں کو سفر آجوئی پر لے جانے کیلیے تیار کھڑی ہے۔ بلوچ وطن کی مان و سمان کیلئے قربان ہونے والوں کے نام عزت و احترام کے نشان ہیں۔ قومی فکر آزادی کی خاطر آج بھی ہزاروں نوجوان پابند سلاسل ہیں۔ ہر موقع جنگ ہے ہر قدم پر دفاع ہے۔ ہر ساعت امتحان و آزمائش ہے، ہر مورچہ قابل رشک ہے، مقطوع اپنا زور دکھارہی ہے۔ قبضہ گیر اپنی سفاکیت پر نازاں ہے۔
بلوچ صحافی ، دانشور فکری و نظریاتی سنگت ساجد بلوچ کا سویڈن سے اغواء بلوچ قوم کے کرب و غم کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ساجد بلوچ کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حق و سچ کی آواز بننے ، قوم دوستی اور قوم پرستی کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساجد کی آواز قلم کے ذریعہ دنیا کی دیگر آزاد اقوام تک پہنچانے کیلئے سفیر کا کردار ادا کررہی ہے اس آواز کو خاموش کرنے کیلیے خوفزدہ استحصالی قوتیں صحافی و دانشور ساجد بلوچ سمیت ہر بلوچ کی آواز کو خاموش کرنے کی کوششوں میں سے ایک غلیظ کاوش ہے۔ ریاست و اسکی ناکام و نامراد پالیسی ساز بلوچ قوم سے نفسیاتی جنگ ہار چکی ہیں اس لیے بلوچ قوم پر ظلم و وحشت کے ذریعہ جبری عبودیت کو طول دینے کی کوشش ہورہی ہے۔ بیرونی ممالک میں بلوچ نوجوانوں کی تنظیمی سطح پر صف بندیاں غیرفطری حاکموں کی نیندیں حرام کررہی ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ ساجد و راشد بلوچ جیسے باشعور سیاسی و سماجی کارکنوں کی قربانیوں سے دنیا کو بلوچ قوم کی جذبہ حریت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اس دن قابضین کیلئے ناکامی و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔
قلم کو آج پابند سلاسل کر کے زنجیروں میں جکڑ کر دوات کو جھوٹ و مکر سے داغ داغ کرکے بوٹوں اور ٹینکوں سے تابع بنانے کی چال رچی جارہی ہے۔ صحافیوں، ادیبوں دانشوروں کو خاموش کرنے کیلئے انسانی حقوق پامال کیئے جارہے ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے شعور کے اسباق کو غلط ملط کرنے کی سازش ہو رہی ہے، پر قلم ہے کہ روانی سے لکھتی ہوئی، علم و فلسفہ کی پرچار کررہی ہے۔ قلم کی نوک قوم اور قوم پرستی کے اہداف واضح کررہی ہے۔ قابض و قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت اور غلامی سے آزادی تک کے سفر کو رقم کرتی ہوئی روشنی کیلئے اندھیروں سے راستہ بنا رہی ہے۔
قلم خود ایک تاریخ ہے۔ تاریخ رقم کرنے کیلئے اسکی روانی ضروری ہے۔ سچائی کو خاموش کرنے کی ارتباط کو ناکام کرنے کیلیے ہر باشعور انسان کو انسانیت اور مزاحمت کا پیغام لکھنا ہوگا۔ بیلدان کی اس داستان کو لہو سے لکھنا پڑتا ہے۔ ظلم و بربریت کے خونی شام کو روشن صبح میں بدلنے کیلئے ہر راقم کو قوم کا سفیر بن کر دیگر اقوام کے پاس جانا ہوگا۔ خوف اور ناکامیوں کو دل سے نکال کر شعوری فیصلوں سے قومی آزادی کی خواہش کو قابل عمل بنانا ہوگا۔ یہ اعلان سرعام کرنا ہے کہ مجھے خاموش کرنے، میرے شعور کا گلہ گونٹھ نے کیلیے میرے قلم کا سرقلم کر دو۔
بیرونی ممالک میں متحرک، بلوچ سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن و تنظیمیں اپنی قلم کی اہمیت و طاقت سے قومی تحریک آزادی کی فروغ کیلئے احساس پیدا کریں، وقت و وسائل کو قومی سوچ و فکر کی ترویج کیلئے استعمال کریں۔ ہم آواز بن کر یکجہتی کے ساتھ ایک مرکز پر جمع ہوکر قومی مفادات کی دفاع و تکمیل کیلیے عالمی قوانین کے مطابق بلوچ قوم کا سفیر بن کر ساجد بلوچ سمیت جبری طور پر لاپتہ بلوچوں کا سیاسی مقدمہ لڑکر بلوچ قوم کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کو اجاگر کریں۔ قومی مفادات کی دفاع میں شامل ہر مورچہ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ترکیب پر عمل کریں۔ بالوں کی کوچی سے بلوچ قوم کے خواب آزادی میں رنگ بھرنے کیلئے کردار ادا کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔