لائف ان اے میٹرو – ایڈوکیٹ عمران بلوچ

569

لائف ان اے میٹرو

ایڈوکیٹ عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کامریڈ لینن کو سالگرہ مبارک اور اسی دن کی مناسبت سے سب کو کتاب کا عالمی دن بھی مبارک ہو۔
ویسے میں ٹہرا ایک ان پڑھ غریب دیہاتی مزدور کا بیٹا خود بھی ان پڑھ مزدور باپ خشکابہ پر جب تک قدرت مہربان دو وقت کی روٹی دیتا رہا قدرت ناراض تو خشک سالی اور پھر ویسے دیہات میں غریب کا ہر دن خشک سالی میں گزرتا ہے بس ایک فائدہ ہے ہماری سب سے بڑی لالچ اور خواہش صرف دو وقت کی روٹی ہی ہوتی ہے گندم کی روٹی، پیٹ نے بہت تنگ کیا تو دو وقت کی روٹی ہی کے لئے پہلی بار کسی شہر کا رخ کیا اور وہ بھی کراچی، روشنیوں کا شہر اور نجانے کس کس نام سے پکارا جاتا ہے یہ شہر میں پہلی دفعہ اپنے گھر اور گاوں سے دور نکلا تھا، ہنر تھا نہ تعلیم نہ سفر اور مسافری کا تجربہ سیدھا کراچی پہنچا جہاں پہلے سے میرے گاؤں  کے چند جاننے والے مزدوری کے لئے آئے تھے ان کے  بلانے پر ہی  پیٹ کی آگ بجانے شہر آیا تھا میرے گاؤں  کے دوستوں نے میرے پہنچنے سے پہلے ہی کراچی یونیورسٹی کے کینٹین والے سے بات کرکے میرے نوکری کا بندوبست کرلیا تھا نوکری کیا کونسا بابو لگا تھا بس میں چائے والا اوئے چائے لا چائے ،جی صاحب ابھی لایا۔

کام اگرچہ کچھ خاص نہ تھا تو کچھ مشکل بھی نہیں تھا، بس وہاں آنیوالے پڑھے لکھوں کو چائے پلانا تھامیرے پاس ایک ہی کپڑے کا پٹھا پرانا جوڑا اور ایک جوڑا پرانے ربڑ کے چپل تھے یہ بھی غنیمت تھا ورنہ بہت سے گاؤں  والوں کے پاس یہ بھی نہیں ہوتا،اوپر سے کام ڈھونڈنے کی نوبت نہ آئی اور کیا چاہیے تھا مجھ غریب کو ،میں روزانہ صبح چھ بجے کینٹین جاتا تھا کوئی اسے کینٹین تو کوئی میس کوئی کیفیٹیریا کہتا تھا جو بھی ہو بہر حال تھا تو ہوٹل ہی۔

لڑکے لڑکیاں چائے پینے اور سموسہ چھاٹ وغیرہ کھانے آتے تھے یہ سب طالبعلم تھے جو وہاں پڑھتے تھے اساتذہ بھی آتے تھے یہ سب سگریٹ بہت زیادہ اور کش لگا لگا کر پیتے تھے بالکل گاؤں کے حکے جیسا، میں نے یہاں پہلی بار لڑکوں اور لڑکیوں کو اس طرح اکھٹے بیٹھتے بات کرتے ، چائے اور خاص کر سگریٹ پیتے دیکھا، گاؤں میں تو مشہور تھا سگریٹ غم اور تھکاوٹ ختم کرنے کے لئے پیتے ہیں لیکن یہاں بنگلوں میں رہنے والے مہنگے گاڑیوں میں آنے والے اور مہنگے لباس پہننے والوں کو کیا غم اور پریشانی ہو سکتا تھا مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا، آہستہ آہستہ میں ان سے سلام دعا کرنے لگا ان کو سگریٹ لاکر دیتا ان کی باتیں بھی سنتا جو مجھے بہت کم سمجھ میں آتے تھے حقیقت یہ کہ سمجھ میں آتے ہی نہیں تھے، ان کی کچھ باتیں تو بہت مخصوص ہوتی تھی جیسے کے وہ زیادہ تعداد میں کینٹین کے کرسیوں پر اور اگر زمین پر بھی بیٹھتے تو اسے سرکل کہتے ، سگریٹ لازمی پیتے اور دوسروں کے سگریٹ زیادہ استعمال کرتے پیکٹ لیکر درمیان میں رکھتے سب ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے، میں حیران تھا سب کا ایک نام کیسے ہوسکتا ہے کبھی کبھی مجھے بھی کامریڈ کہتے، میں بہت پریشان ہوجاتا ابتداء میں مجھے سمجھ نہیں آیا یہ لفظ کیا ہے پہلے تو میں سمجھا کہ کم ریٹ پکارتے ہیں ایک دوسرے کو یہ،میں اور بھی حیران تھا کہ آخر کس چیز کا کم ریٹ، بعد میں معلوم کرنے پر پتا چلا کامریڈ یعنی ہم خیال یعنی دوست یعنی انقلابی میں اور پریشان ہوگیا کیونکہ خلوص اور وفا ان میں دور دور تک نہیں تھی تو دوست کیسے، پھر میں بھی کامریڈ ہم خیال یہ بھی غلط تھا کیونکہ میرے خیالوں میں بس گندم کی روٹی اور زیادہ سے زیادہ دال ہوتا تھا یہ تو انگلش فلموں، سینما،  شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور ہال وغیرہ کی بات کرتے تھے کبھی ٹی ٹو ایف کبھی فریریر ہال کبھی سیمینار تو کبھی کیا بولتے ، سیمینارز مظاہرہ ریلی بہر حال، مجھے جو بھی ان سے ملا، پریشانی ہی ملا ویسے تو یہ اردو بولتے ،اس کے علاوہ اپنی اپنی مادری زبانوں میں بھی بات کرتے لیکن جب کوئی نیا آدمی ان کے پاس آتا پھر یہی لوگ انگریزی میں بات کرتے نجانے کیوں ایسے میں مجھ سے بھی انگریزی بولتے مجھے تو اردو بولنا مشکل سے آتی تھی تو انگریزی کہا سمجھ آتی، مگر پتا نہیں ایسا کیوں کرتے تھے یہ لوگ،کبھی کبھی ان کے پروگرامز ہوتے تو چائے سموسہ اور مہمانوں کی خدمت ہم ہی کرتے سمجھو میں کامریڈ بن گیا تھا ۔

ایسا وہ بولتے تھے مجھے، یہ کامریڈ ہنس ہنس کر سب کو کہتے تھے پروگرامز کے نام مارچ، ریلی ،سیمینار ،برسی، بک اسٹال، لیکچر پروگرام ہوتے تھے جن میں عورتوں کے حقوق، کسان ،غربت بے روزگاری کامریڈ اس کے ساتھ ساتھ لینن مارکس اینگلز انقلاب داس کیپیٹل فلسفہ مطالعہ ایسا یہ بولتے تھے ہر پروگرام کے بعد ناچ گانا ہوتا تھا بعد میں تو پروگرام ناچ گانا ہی ہوتا تھا ،یہ بولتے تو مزدور ہاری غربت بے روزگاری تھے چائلڈ لیبر وغیرہ جیسی باتیں ایسے کرتے جیسے مزاحیہ ڈرامہ دیکھ رہیں ہوں بس ہنسی مذاق چائے پارٹی سگریٹ وغیرہ میں حیران تھا کہ جب تک یہ لوگ بھوک اور غربت کو سمجھے گے نہیں تو انھیں کیسے پتا چلے گا یہ ہوتا کیا ہے ، ہمارے کپڑے غربت کی وجہ سے پٹھے پرانے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ اسکرٹ اور پٹھے جینز کے نام پر فیشن تھا ، اے سی بڑے ہوٹلز سگریٹ ان پر جتنا یہ خرچ کرتے تھے اس سے میرے پورے گاؤں کی غربت ختم ہو جاتی اور پھر لینن مارکس انقلاب ، انقلاب مطلب تبدیلی سماجی تبدیلی ، میں حیران تھا کہ غربت، میرا بھوک، میری بے روزگاری ،میرا ننگا بدن، میری بیماری میری، یہ سب مسئلے میرے لیکن مجھ سے دور اور بے خبری میں یہ سب فائو اسٹار ہوٹل میں ہوتا تھا یہ اپنی انگریزی پر بلکہ اردو پر کپڑوں پر کھانوں پر کھانے کے طریقے پر تعلیم پر معلومات پر بہت فخر کرتے تھے علم تہذیب شعور وہ تھا جو ان کے پاس تھا باقی کچھ نہیں، جن کے مسئلے کی یہ بات کرتے تھے انھیں کے کپڑوں پر غلط اردو بولنے پر، کھانا ہاتھ سے کھانے پر ہنستے تھے سارا  دن یہی ان کے ہنسی مذاق کا موضوع ہوتا تھا انگریزی نہ بولنا ان کے سامنے جہالت کی نشانی تھی ،اپنے سواء کسی کو اور کسی کی نہ مانتے تھے بعد میں پتا چلا لینن مارکس تو بہت پڑھے لکھے لوگ تھے یہ ان کی بات تو کرتے تھے لیکن عمل میں بہت فرق تھا وہ غریب مزدور کسان کی بات کرتے ان کے لئے لکھتے تھے ان کے پاس جاتے ان کے لئے عملی کام کیا تھا ، ان کی تکالیف اور مصیبتیں جانے تھے، یہ تو ان سب سے بہت دور ہیں ، میں حیران تھا یہ کیسا انقلاب اور انقلابی ہیں جو خود تو ترقی یافتہ اور بے خبر ہیں۔

یہ سب مسئلے تو ہمارے ہیں،  پسماندہ بھی ہم ہیں انکے اور ہمارے درمیان ہر لحاظ سے بہت فاصلہ ہے تو یہ سب کیا تھا مجھ غریب کو کچھ سمجھ نہیں آیا، بہت بعد میں مجھے پتا چلا کہ کوئی بل گیٹس بھی ہے اور کوئی اسٹالن بھی تھا تب مجھے یہ لینن سے بہت دور اور اسٹالن کے بہت ہی قریبی لگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔