شہدا کے لاشوں کی بے حرمتی پاکستان کا انسانی اقدار سے محرومی کا مظہر ہے ۔ بی این ایم

299

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے اپنے مشترکہ بیان میں شہید میجر نورا بلوچ اور ساتھیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروم میں پاکستانی فوج نے چار بلوچ فرزندوں کو زمینی اور فضائی بمباری سے شہید کرکے ان کی لاشوں کی جس طرح حرمتی کی ہے، یہ عمل پاکستان کا انسانی اقدار سے محرومی اور بلوچ قوم کے خلاف نفرت کا مظہر ہے۔ پاکستانی فوج نے شہدا کی لاشوں کو گاڑیوں کے پیچھے گھسیٹ کر انسانی، قومی، جنگی اقدار و قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ ایسے گھناؤنے حرکت بلوچ قوم سے شدید نفرت اور بلوچ قوم کو دہشت زدہ اور خوف کا شکار کرنے کا ایک حربہ اور پالیسی ہے۔ اس سے پہلے مشکے میں معزز اسکول ٹیچر ماسٹر سفر خان بلوچ اور شہید سلیمان اور ساتھیوں کی اسی طرح بے حرمتی کی گئی۔ ہماری نشاندہی کے باوجود عالمی ادارے اور عالمی طاقتیں اس جرم کا نوٹس لینے میں ناکام رہے۔ یوں پاکستان کو ایک دفعہ پھر استثنیٰ مل گئی اور وہ مسلسل عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی میں شہید میجر نورا اور ساتھیوں نے بھی بہادری کی نئی داستانیں رقم کر دیں۔ قابض کی طاقت و جدید عسکری اسلحے سے لیس فوج کے سامنے سر زمین کے سچے فرزندوں نے اپنے جذبہ شہادت، بہادری اور انمول لہو سے وہ داستان لکھی ہے جسے نہ صرف بلوچ قومی تاریخ بلکہ دنیا بھر میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بی این ایم چیئرمین و سیکریٹری جنرل نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اس میں شہید میجر نورا بلوچ کے علاوہ مومن جان بھی بہادروں کی صف میں شامل تھا۔ اس بمباری میں ایک ہی ماں کے دو گھبرو جوان بیٹے نواز جان اور عبدالمالک بھی دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔ بمباری میں بلوچ فرزندوں نے سرنڈر کے بجائے مزاحمت اور شہادت کو ترجیح دی اور سرزمین بلوچستان کی دفاع میں فدا ہوئے۔ بلوچ قوم ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ شہداء کی لہو نے ہمیشہ قومی آزادی کے لئے جذبوں کو نئی بلندی اور نوجوانوں کو مزاحمت کی طرف راغب کیا ہے۔ دوسری طرف دنیا کو جنگ زدہ علاقوں میں اپنے مشن بھیج کر جنگی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیئے۔ پاکستان جنگی قوانین کی خلاف ورزی میں سر فہرست ہے مگر کچھ اداروں کی دوغلی پالیسیوں اور عالمی مفادات کی وجہ سے بلوچ قوم پاکستانی فوج کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کی تاریخ مزاحمت میں بہادری و شجاعت سے عبارت ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں بلوچ فرزند قبضہ گیروں کی سامنے سینہ سپر ہوکر مادر وطن کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ شہید نورا بلوچ زمانہ طالب علمی سے بلوچ قوم پرستانہ سیاست سے جڑے ہوئے تھے۔ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے قومی آزادی کے لئے سرگرم رہے۔ شہید میجر نورا بلوچ کی شعور اور قوم پرستانہ سیاست سے دشمن اتنا خائف تھا کہ کنگ ایڈورڈ کالج لاہور میں انہیں دوران حصول تعلیم اٹھایا گیا، زندانوں میں شدید تشدد کا نشانہ بناکر بلوچ اسیروں کے خلاف اقبالی گواہ بنانے کی کوشش کی۔ شہید نورا بلوچ نے اپنے تعلیمی کیریئر کو الوداع کہہ دیا لیکن دشمن کے لئے آلہ کار بننے کے بجائے قومی جہدِ آزادی میں اپنا سفر جاری رکھا اور اسی راہ میں شہید ہوئے۔ وہ جان چکے تھے کہ سرفیس میں رہ کر وہ ایک دفعہ پھر ریاستی خفیہ زندانوں میں اذیت کا شکار ہوجائیں گے۔ اس زندگی کا انتخاب کرکے وہ بلوچ قومی خدمت کرنا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب ہوئے اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا شہید میجر نورا بلوچ نے محاذ پر نہ صرف دشمن کا بہادری سے مقابلہ کیا بلکہ میدان جنگ میں شہادت کے وقت بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کے نام پیغام جاری کرکے دشمن پر ثابت کردیا کہ بے شک تم ہماری جسموں پر فتح پاسکتے ہو لیکن بلوچ قومی آزادی کی آواز کو نہیں دبا سکو گے۔ شہید نورا بلوچ نے جس بہادری سے موت کو للکارا، وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔