شہدائے مرگاپ
تحریر۔ شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
واجہ غلام محمد، لالا منیر اور شیر محمد بلوچ کو ریاستی اداروں نے جس طرح سرعام اٹھا کر غائب کردیا، وہیں سے ایک نئے فیز کی ابتداء ہوئی۔ بلوچ سیاسی سرفیس کو مکمل ختم کرکے سماجی مجرموں کے لیئے راہ کو ہموار کرنے کی ریاستی منصوبہ بندی پر عمل درآمد شروع ہوچکا تھا۔
سولیکی کیس میں سیاسی پارٹیوں کی کمیٹی کو لے کر شہید سگار امیر بخش کے خدشات بھی درست ثابت ہوئے۔
ریاست کے جواب میں بلوچ کے پاس کوئی اجتماعی پالیسی نہیں تھی، نا ہی بلوچ آزادی پسندوں نے سیاسی ایجی ٹیشن کا راستہ اپنایا بلکہ زیر زمین ہوکر ریاست کے لیے کام مزید آسان کردیا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں زیر زمین رہ کر ریاست کے کام کو آسان کیا گیا، وہیں اگر سرفیس پر وسیع پیمانے کا احتجاج کیا جاتا تو شاید نتائج کچھ مختلف ضرور ہوتے۔
واجہ غلام محمد سمیت ساتھیوں کے اغواء نے بابا مری کی پیشن گوئی کو بھی درست ثابت کردیا کہ ریاست سرکردہ سے لے کر عام بلوچ تک کو نشانہ بنائے گا گویا یہ ٹارگٹ کلنگ تو ہے ہی لیکن ماس کلنگ بھی ہے۔ ماس کلنگ کا مقابلہ سیاسی پارٹیاں زیر زمین رہ کر نہیں کرسکتی بلکہ ان کو اس کا مقابلہ سیاسی ایجی ٹیشن کی صورت میں کرنا پڑتا ہے لیکن افسوس کہ ہم نے مستقبل کے حوالے سے اتنی خوش فہمیاں گڑھ لیں تھی کہ ریاست نظر انداز ہوچکا تھا۔ فضول مباحثوں میں بلوچ سیاسی سرفیس کے مستقبل کا سوال نظر انداز ہوچکا تھا۔
ریاست نے اپنے اہداف حاصل کرلیے اور ہم بغیر کسی resistance کے سیاسی گراونڈ سے پیچھے ہٹ گئے۔ اگر انڈرگراونڈ جانے سے یہ سلسلہ رک جاتا، تب بھی ہم اسے حکمت عملی تسلیم کرلیتے لیکن یہ حکمت عملی کی بجائے ہماری اجتماعی حماقت ثابت ہوئی۔ سیاسی میکانزم رک گیا، سیاسی رابطے ٹوٹ گئے اور ہمارا عمل اب محدود ہوکر رہ گیا۔ ہر ایک نے اپنی الگ وضاحتیں تیار کر رکھی تھیں، وہ وضاحتیں انفرادی یا گروہی سطح تک مطمئن کن تھیں، لیکن اجتماعی سطح پر ان کی حقیقت کھوکھلی تھی۔
اغوا کے واقعات بڑھتے گئے لیکن سب سے بڑا المیہ کہ ہماری سیاسی مزاحمت لاپتہ ہوچکی تھی۔ سیاسی احتجاج کے بجائے ہم نے خوفزدہ ہوکر ریاست کو کسی بھی سطح پر مشکلات سے دوچار نہیں کیا حالانکہ زمینی حقائق بالخصوص بلوچ عوام کی حمایت ہمارے حق میں تھی۔
بلوچ تحریک کے پس منظر میں جانے کی وجوہات پر بحث کی گنجائش میں اگر امکانات پر غور کیا جائے تو اکثر صفحوں پر ہماری اپنی کوتاہیاں درج ہونگی۔ ہم جو تحریک کو مزید بہتر طریقے سے ریاستی پالیسیوں کے خلاف استعمال کرسکتے تھے لیکن ہم نے خوفزدہ ہوکر تحریک جیسی عظیم طاقت کو اپاہج کردیا۔ ریاست کو جب اندازہ ہوگیا کہ سیاسی طور پر بلوچ مزاحمت سے محروم ہوچکا ہے تب اس نے بڑی آسانی کیساتھ اپنا وار کردیا۔
آج گیارہ سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ واجہ غلام محمد و ساتھیوں کی خلاء ایک بحران کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ایک دوست کے بقول اس تحریک کے باپ سب بننا چاہتے ہیں لیکن ماں بن کر پرورش کے لیے کوئی تیار نہیں۔
ضد، انا، شخصیت پرستی و قبائلی مزاج کو لے کر کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ جن جہدکاروں نے تحریک میں پنپنے والے منفی رویوں کی نشاندہی کی ان کو دیوار سے لگانے کے لیے کوششیں کی گئی۔ ہم گذشتہ ایک دہائی میں تنزلی کی جانب گئے اور تحریک کو اپنے منفی رویوں سے ان گنت نقصانات سے دوچار کیا۔ ہم نے واجہ غلام محمد سے لے کر استاد اسلم تک کو کھو دیا حالانکہ تحریک اپنے مرکزی رہنماوں کا حفاظت اخری حد تک کرتی ہے۔ یہ تنظیموں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لیڈروں کے حفاظت کو یقینی بنائیں اور کسی بھی مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں لیکن افسوس کہ بلوچ ابھی تک اپنے انقلابی رہنمائوں کے تحفظ کو لے کر غیر سنجیدہ ہے۔
شہدائے مرگاپ ایک نیا باب تھا لیکن یہ کسی کہانی کا خاتمہ ہرگز نہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا، وسیع المدتی بنیادوں پر سوچنا ہوگا کہ ہماری کن کوتاہیوں نے ہماری تحریک کو نقصان پہنچایا اور ان کو عملی طور پر دور کرنے کے لیے ہم نے کیا اقدامات کیے یا کونسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
شہیدوں کا لہو ہمیں کبھی معاف نہیں کریگا اگر ہم اس تحریک کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں کرتے کیونکہ تحریک ہماری کسی صورت محتاج نہیں، ہم نہیں تھے تحریک تھی، ہم نہیں ہونگے تب بھی تحریک ہوگی لیکن ہمارے کردار پر سوالیہ نشان بہت واضح ہونگے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سنجیدگی سے عمل کریں، ہیروازم، قبائلی مزاج اور گروہیت کے اثرات سے نکل کر سیاسی انقلابی بنیادوں پر تنظیم کاری کریں اور یہی بہترین طریقہ ہے آنے والے مستقبل میں شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔