سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 6 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

348

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
یونانی و پرتگالی سام راج (حصہ دوئم)

گوادر، پسنی اور ماڑہ اور جیوانی میں انسانی آباد کاری کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دوسرے قابلِ ذکر مقامات میں پیشکان، سوربندر، گبد، سُنٹ سر، کپر، گنز، تنک، نوخ بر، شنزانی، چُر، رمبرا، گورسُنٹ، ماکولا، جافری، ہد اور کولمیر سُنٹ شامل ہیں۔

اس کامران و کامیاب گلوبل فاتح کا بُھر کس عملی طور پر مکران نے نکال دیا تھا۔ بارشوں اور سیلابی دریاﺅں کے بپھر جانے اور بھون ڈالنے والی گرمی نے اس کی فوج کو پاﺅں رگڑا رگڑا کر مار دیا۔ بقیہ کو بلوچ مزاحمت نے کاٹ کھایا۔ (اس کی پوری فوج کا 75 فیصد حصہ یہیں بے گورو کفن مرکھپ گیا تھا)۔ تبھی تو سکندر نفرت سے بلوچوں کے بارے میں وہی الفاظ کہتا ہے جو بعد میں پرتگیزیوں، عرب نو آباد کاروں ،مغلوں، انگریزوں اور ایشیائی توسیع گروں نے اس آزادی پسند قوم کے لیے استعمال کیے: ”اوائل عمر سے لے کر زندگی کے آخر تک یہ وحشی طائفے ہاتھ پیروں کے ناخن نہیں کاٹتے تھے۔ اپنے سر اور چہرے کے بال نہیں کٹواتے تھے۔ ان کے جسم کی کھال سیاہ رنگ کی تھی۔ وہ مختصر لباس پہنتے تھے۔ خوراک بھی ماہی اور لباس بھی ماہی……..“ (پتہ نہیں مہذب یہی میلے کچیلے بلوچ ہیں یا اُن پر صاف ستھرے، گورے چٹے یہ حملہ گر!!۔ اور پتہ نہیں روح کے یہ میلے نیتوں کے یہ سیاہ لوگ بلوچوں کے ناخنوں، بالوں کی فکر میں کیوں بے چین رہتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے خالق وحشی لوگ !!)۔

سکندر جان اس قدر درد اور کرب سے گزرا کہ جب وہ بہت سی مشکلات اور جانی ضیاع کے بعد موجودہ ”ایران شہر“ پہنچا تو باقی زندہ لوگوں کے بلوچستان سے سلامت آجانے پر اس نے سات دن سات راتوں تک جشن منایا، شرابیں پیں اور بدمستیاں کیں۔
سکندر کے جنرل نکاتر کی حکمرانی کے بعد سال 303 میں چندر گپت یہاں کا حکمران بنا۔ ”سکندرئِ سنگر“ کوہِ باتیل کی بلند ترین چوٹی پر اس قدر بلندی پر واقع ہے کہ واقعتا سارے سمندر کی نگہبانی، رکھوالی کی جاسکتی تھی۔

ہم اِس چوٹی پر چڑھے۔ یہاں سے ہمیں بھی سمندری بین الاقوامی شاہ راہ صاف صاف نظر آرہی تھی جہاں بڑے بڑے سمندری جہاز آجارہے تھے۔ واضح رہے کہ بحیرہ بلوچ کا سمندری روٹ دنیا میں مصروف ترین روٹس میں شمار ہوتا ہے۔ تیل سے مالا مال خلیج فارس آنے جانے والے سارے جہاز اس علاقے سے گزرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ سالانہ گیارہ ہزار جہاز جن کا وزن بارہ ہزار ملین ٹن ہے بحیرہ بلوچ سے گزرتے ہیں۔ 2500 آئل ٹینکر 33 ملین ٹن تیل لے جاتے ہیں۔(2)

چوٹی پر واقع اسی سنگر کے عین نیچے باتیل پہاڑ کی جڑ میں ایک تہہ خانہ بنا ہوا ہے۔ اس میں تین کمرے بنے ہوئے ہیں پہاڑ کے اندر۔ ہمارے اچھے میزبان علی بلوچ اور اس کے ساتھی اُسے ”سکندر کا قید خانہ“ کہتے ہیں۔ مگر اب اس غار کو سبز، سرخ، کالے، پیلے کپڑوں کی جھالروں سے سجا کر ایک درویش کے قدیم مسکن اور عبادت گاہ سے منسوب کیا گیا ہے۔ روٹی بہت سے کام کرواتی ہے!

اس ”قید خانہ“ کے دروازے کے گرد کچی دیواروں کا ایک احاطہ تعمیر کیا گیا ہے۔ جھالریں اگر بتیاں، ڈنڈے کونڈے…….. احاطہ خوب جھاڑو شدہ ہے۔ اندر جائیں تو بہت اندھیرا ہے، (کرامت کی جگہیں پتہ نہیں تاریک کیوں ہوتی ہیں!)۔ اور صرف ایک آدمی کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ مصنوعی روشنی میں ایک بغلی جگہ پر داخل ہونا ہوتا ہے، مٹی کے فرش میں ایک سوراخ نیچے ایک سرنگ میں اترجاتا ہے۔ جہاں سے ایک راستہ زیر زمین دائیں جانب جاتا ہے اور دوسرا بائیں طرف۔ علی بلوچ بتاتا ہے کہ اندر جا کر سات مقامات پر قیدیوں کے چیمبر سے بنائے گئے ہیں۔

گوادر اُس کے زمانے میں خوش حال چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں باغات تھے اور کھجور کے جھنڈ تھے۔ غار میں داخلے کی جگہ پر پتھر کی ایک سل پر کھرچ کھرچ کر یہ تحریر کنندہ تھی؛
ایں مکان سا کنہ حاجی سید محمد حسن مثنیٰ تیار ساخت از ہذا ٹربنگی رب العزت جل جلالہ
در ماہ محرم 1339 عمر قادر درباران داد

اندرونی کمرے کے بغلی حجرے میں سنگ مرمر کی تختی پر یہ تحریر تھی؛
لہٰذا المکان الااعلیٰ از کمترین خلق اللہ تعالیٰ السید حاجی محمد حسن بن السید بہرام القادری
المتوطن الفشنگی الخانسوری در زمان،سلطان تیمور بن سلطان فیصل العامل
ملا قادر داد جن باران تمت، دہم محرم الحرام 1339ھ

(ارے یہ فشنگی کہیں پشین تو نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو یہ صاحب یقیناً سود کا کاروبار کرنے بمبئی یا کڑمب (کولمبو) نہ جا سکا ہوگا اور یہاں گوادر میں ہمارا پیر بن بیٹھا!)

سکندر اور سمندر مبالغوں، رواتیوں، داستانوں اور کہانیوں کے ساتھی ہیں۔
اُس کے دور میں، ہمارے سمندر پہ آج کی ایک اور غیر سمندری قوم یعنی پنجاب کی نیوی کے ہیڈ کوارٹر اورماڑہ کو ”باگ سیرا“ کہتے تھے ۔(3)

مکران سے حتیٰ کہ بارہویں صدی میں ھند، سندھ، زنجیبار، اور مصر کے لوگ، مشک، نیل، خوشبودار جڑی بوٹیاں اور ھند اور زنجیبار کے غلام، مخمل، شالیں اور دیگر نایاب ”اشیا“ کی تجارت کیا کرتے تھے۔ وہ مصری اور شکر…. مکران سے ”بے خدا ممالک میں بھی اور اسلام والے علاقوں میں بھی“ برآمد کرتے ہیں۔(4)

واضح رہے کہ گوادر ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی میں ایک جانی پہچانی بندر گاہ تھا۔ جس کا عرب موورخین کے ہاں ”طیز“ (Tiz) کے نام سے تذکرہ ملتا ہے۔ (5)

مارکوپولو جب واپس اپنے وطن جا رہا تھا تو 1290ء میں بلوچ ساحل سے گزرا تھا۔ اس نے بھی ہماری فضاﺅں کے ذائقے سونگھے، ہماری معطر ہوائیں چکھیں اور ہمارے دل فریب ساحل دیکھے۔ ہمیں اس کے بیان کے کچھ ٹکڑے ملے ہیں؛ ”کیچ مکران ایک سلطنت ہے جس کا اپنا ایک بادشاہ ہے اور ایک مخصوص زبان ہے۔ کچھ لوگ بت پرست ہیں۔ وہ تجارت کرتے ہیں اور صنعت سے وابستہ ہیں، اس لیے کہ وہ پکے تاجر ہیں اور زیادہ تر مال سمندر اور زمین سے ہر طرف لے جاتے ہیں۔ ان کی خوراک چاول، مکئی، ماھی اور دودھ ہے“۔(6)

صابر بدل خان سولہویں صدی کے وسط میں ترک ایڈمرل علی رئیس کی مکران آمد کا حوالہ دیتا ہے، جس نے یہاں کی آبادی اور ان کی بحری سرگرمیوں کی تفصیل دی ہے۔ وہ نوتک بلوچ کی کشتی سے اپنی مد بھیڑ کا ذکر یوں کرتا ہے؛
”یہاں ہمارا نوتک کے قزاق جہاز سے واسطہ پڑا جو کہ لُوٹ کے مال سے لدا پھندا تھا اور جب چوکیدار نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم مسلمان ہیں تو ان کا کیپٹن ہمارے جہاز پر آیا۔ اس نے شفقت سے ہمیں پانی دیا اس لیے کہ ہمارے پاس پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں بچا تھا، اور اس طرح ہمارے تھکے ہوئے سپاہیوں کی جان بچ گئی…….. اسی کیپٹن کی حفاظت میں ہم گوادر کے ساحل پہ اترے۔ وہاں کے لوگ بلوچستانی تھے اور ان کا سربراہ ملک جلال دین تھا جو کہ ملک دینار کا بیٹا تھا۔(7)

بلوچستان کے ساحلِ سمندر کے ساتھ ساتھ کئی مساجد ، تاریخی عمارات اور مندر واقع ہیں جو سیاحوں کے لیے باعث ِکشش ہیں ۔ لیکن ان مقامات تک رسائی نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے ثقافتی سرمایہ کو نہیں دیکھ سکتے ۔ سڑکوں کی تعمیر سے آثارِ قدیمہ اور تاریخی مقامات تک رسائی ہو تی جارہی ہے ، اور خوب خوب بلوچستان شناسی ہونے لگی ہے ۔
کوہِ باتیل پر سولہ کلو میٹر تک سنگار رہائشی سکیم بنا ئی گئی ہے ۔ پکی سڑک اور سیورج کا جال


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔