سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 5 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

601

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
یونانی و پرتگالی سام راج (حصہ اول)

شام کو ہمارا پروگرام کوہِ باتیل کی سیر کا تھا۔ چنانچہ ہم استاد حمید کی گاڑی میں بیٹھ کر کوہ ِباتیل دیکھنے چلے گئے۔ استاد حمید گوادر کا زبردست آدمی ہے۔ وہ میرے معزز دوست، علی بلوچ کا دستِ راست اور متحرک ترین معتمد ہے۔ علی کی رہنمائی میں انسانی حقوق کی جدوجہد میں جُتا ہوا ہے۔ بہت ہی دل نواز شخص ہے۔ وہ گاڑیاں مرمت کرتا ہے۔ اس کے گیراج میں طرح طرح کی گاڑیاں مرمت کے لیے آتی ہیں۔ لہٰذا گوادر کی سیر ہم ”برائے مرمت گاڑیوں“ میں کرتے رہے۔ مختلف سائز کی گاڑیاں، مختلف میڈ کی گاڑیاں، مختلف برانڈ کی گاڑیاں، بلوچ کی شان دار مہمان نوازی۔ حمید خود بھی دلچسپ آدمی ہے۔ یار باش، بے پرواہ، سینہ کشادہ ہے، (جسمانی طور پر بھی اور محاورتاً بھی)۔

ہم بتا چکے ہیں کہ وہ لوگ پان کے علاوہ سب کچھ طہارت والی کھاتے اور ”پیتے“ ہیں۔ اگر علی بلوچ معلوماتی فلسفیانہ باتیں کرتا ہے تو حمید بالکل عام بات کرتا ہے، لوگوں کی، عام آدمی کی بات۔ گپ شپ میں مزہ آتا ہے۔ ہر مکینک کی طرح حمید بھی کام کے وقت میلا کچیلا یونیفارم پہنتا ہے۔ کام کے دوران وہ محنت کی خوب صورتی کا شاہ کار بن جاتا ہے۔ ہاتھ، منہ، کپڑے سب موبل آئل زدہ، کالے۔ آستینیں چڑھی ہوئیں۔ مصروف، محنتی اور مکمل اشرف المخلوقات…….. وہی حمید جب فارغ ہوتا ہے کہ تو شیو کر کے، غسل کر کے صاف کپڑے پہن کر کنگھی شدہ سر کے ساتھ باہر نکلتا ہے تو ہندوستانی پرانی فلموں کا ہیرو لگتا ہے۔ صرف ایک بد صورتی ہے اس میں: پان بہت کھاتا ہے۔ منہ ہمیشہ سرخ لعاب سے بھرا ہوتا ہے۔ بات کے ساتھ سرخ رنگ کی بارش کی پھوار برستی ہے۔ پان خوروں ہی کی طرح ہونٹوں سے چاروں جانب تربیلا بند باندھے گفتگو کرتا ہے…….. حمید زندہ باد، اس کی گاڑیاں زندہ باد، اس کے یار بیلی زندہ باد، اس کا لیڈر علی بلوچ زندہ باد اور ان سب کی مہمان نوازی زندہ باد…….. مگر ان لوگوں کی پان خوری مردہ باد۔

گوادری لوگ ”باتیل“ یا ”بتیل“ چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں۔ ہمارے مشرقی بلوچستان میں یہ لفظ آدمیوں کے نام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صرف تلفظ کا فرق ہے۔ ہم اسے باثیل پکارتے ہیں، عربی والا ”ث“ ادا کرتے ہیں۔ حضرت مست توکلی نے باثیل سمیت اپنے دوستوں اور ہم دردوں کے نام یوں گنوائے ہیں؛
گوئر بلوچانا دعائیں ملخانی
آسرو اومیثے گریوانی
سرجمیں شاذی ہاں قلاتانی
تامیں ناں باثیل بور بنا تاتی

البتہ ہم مشرقی بلوچستان کے بلوچوں کو باثیل کا مطلب نہیں آتا۔ معلوم نہیں کہ یہ لفظ اصلاً مشرقی بلوچی کا ہے یا مغربی کا۔ اور اگر مغربی بلوچستان کا ہے تو پھر یہ مشرقی بلوچستان میں کب آیا؟ اگر اس کے مطلب کشتی کے ہیں تو مشرقی بلوچستان میں اس نام کو برقرار رکھنے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا، جہاں نہ کشتی ہے نہ سمندر۔ اُدھر، خود مکران میں مجھے باتیل نام کا ایک آدمی بھی نظر نہیں آیا۔

کوہِ باتیل، فطرت کی صورت گری کے چند نمونوں میں سے ایک ہے۔ آپ نیچے زمین پر سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ قدیم دور کی کوئی فصیل ہے جسے ہزاروں بلڈوزروں نے برسوں محنت کر کے مٹی سے گویا پچھلے برس ہی مکمل کر لیا ہو۔ گوادر کی حفاظتی مٹی کی دیوار۔ ساخت ایسی جیسے ہاتھ لگائیں تو بھر بھرا ہو کر ڈھے جائے۔ لیکن اوپر جائیں تو یہ مٹی نہیں پہاڑ ہے، پہاڑ جیسا سخت۔ یہ فاسلز سے بھرا ہوا ہے۔ سمندری حیات کی آماج گاہ ہے۔ اس پہاڑ پر گہرے نسواری رنگ کی بے ترتیب چوٹیاں ہیں، جو 500 فٹ تک بلند ہیں۔

کوہ ِباتیل، گوادر کی جنوبی فصیل تشکیل دیتا ہے۔ سمندر کو خشکی سے جدا کرنے والی دیوار۔ پہاڑ پر چڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جیسے پانی کے ایک وسیع تھال کے اندر خشکی نے زبان نکال کر گویا سمندر کا مذاق اڑا لیا ہو۔ یہی نکلی ہوئی زبان گوادر ہے۔ یہ زبان شمال میں مہدی نامی پہاڑ میں سے نکلتی ہے۔ اس خشکی کی پٹی کے دائیں طرف کا سمندر ”پشتی زر“ (عقب کی طرف کا سمندر) بن جاتا ہے اور انسانی زبان جیسی خشکی کی بائیں جانب ”دیمی زر“ (سامنے والا سمندر) اور زبان کے سامنے والا جنوبی حصہ دانتوں کی دیوار یعنی کوہ باتیل ہے جس کی لمبائی تقریباً 20 میل ہے۔ اس پہاڑ کا مشرقی حصہ جمبیل کہلاتا ہے۔ (مشرقی بلوچستان میں ایک بڑے پہاڑ کا نام تُمبیل ہے جو گوادر سے ہزار میل دور ہے۔ نام، الفاظ، خیالات کس طرح سفر کرتے ہیں۔ جُمبیل، تُمبیل! باتیل، باثیل!)

جُمبیل پہ نیوی کا اڈہ ہے۔ اس مقتدرہ علاقے میں عام میلے کچیلے (بلوچ) لوگ نہیں جا سکتے۔ بے نظیر پوائنٹ بھی اسی جُمبیل پہ واقع ہے۔

کوہِ باتیل کی شمالی چوٹیوں پر فصیل نما مورچے ہیں اور پتھروں کی چار دیواری کے آثار ہیں۔ علی بلوچ اور اس کے ساتھی اُسے ”سکندرئے سنگر“ ( سکندر کا مورچہ) کہتے ہیں۔ وہی ہمارا آپ کا جانا پہچانا سکندر، سکندر اعظم جو دنیا میں تھا تو تباہی بربادی پھیلاتا رہا اور گیا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ یہ حضرت، جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہندوستان کی فتوحات سے واپسی پر بلوچستان سے گزرا اور مکران میں وارد ہوا۔ اس کے ایڈمیرل نیر کوس، (جس نے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کیا تھا) کے لیے سفر نامہ لکھنے والے آرین نے اپنی تحریر میں کلمت، گوادر، پیشکان اور چاہ بہار نامی مقامات کا نام لے کر ذکر کیا تھا، جب اس نے یہاں مصالحہ جات کی پیداوار کا ذکر کیا تھا(1)۔ یہ بھائی صاحب کیٹی بندر سے روانہ ہوا، اورماڑہ، کلمت، ہپت تلار، پسنی اور گوادر سے ہوتا ہوا آگے گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔