سائیں جی ایم سید کا قومی فکر اورقومی تحریک کو درپیش چیلنجز – اصغر شاہ

580

سائیں جی ایم سید کا قومی فکر اورقومی تحریک کو درپیش چیلنجز

 تحریر : اصغر شاہ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ ساز شخصیات اپنے اپنے ادوار میں تاریخ ساز فکر و فلسفے دیکر اپنے  وطن اور قوموں کی رہنمائی و رہبری کرتی رہی ہیں، جس کے لئے تاریخ میں انہیں  صدیوں تک یاد رکھا گیا ہے، رہبرِ سندھ سائیں جی ایم سید نے بھی بیسویں صدی کے ۷۰ع والی دہائی میں صبحِ نوید اور صدیوں کی صدائیں بن کر سندھی قوم کے سامنے جدید قوم پرستی کا نظریہ پیش کیا، جسے سندھ اور دنیا “فِکرِ جی ایم سید یا پیغامِ سندھ” کے نام سے جانتی ہے۔

اس وقت کے ضلع دادو کے چھوٹے سے گاؤں ” سن “میں جنم لینے والے سائیں جی ایم سید نے اپنی سیاسی جدوجہد کی شروعات ۱۶ سال کی قلیل عمر میں کی اور ۲۵ اپریل ۱۹۹۵ع میں اپنی وفات کے آخری دن تک ایک متحرک رہنماء و رہبر کا کردار ادا کرتے رہے، سائیں جی ایم سید کے سامنے شروع سے لیکر آخر تک اپنی وطن، قوم، زبان، تاریخ، کلچر اور ان کے مفادات ہی مقدم اور اعلیٰ رہے اور اس کی سیاست اور جدجہد انہی اعلیٰ و آدرشی مقاصد، مفادات اور اصولوں کی حاصلات، تحفظ اور دفاع کے چوگرد گھومتی رہی، اپنے وصال کے آخری لمحات میں بھی ہمیں اپنی قوم کے لیئے تلقین کرتے ہوئے ہم سے جسمانی طور پر تو جدا ہو گئے ہیں، لیکن فکری،سیاسی و نفسیاتی طور پر قدم بہ قدم ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

آج سائیں جی ایم سید کی برسی کے موقع پر میں آپ کے سامنے کچھ ضروری باتیں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ سندھ کے باشعور لوگ، دانشور اور قومی کارکنان اس پر باریک بینی سے غور و فکر کریں اور ایک تھنک ٹینک کی حیثیت سے رہبرِ سندھ سائیں جی ایم سید کے فکر کی روشنی میں سندھی قوم کو غلامی کی اس بدترین صورتحال میں کامیابی سے باہر نکالنے میں اپنا قومی کردار ادا کرسکیں۔

الف : پس منظر

سائیں جی ایم سید جن دنوں میں اپنی تحریک کے بنیاد ڈال رہے تھے، اس وقت پورے برِصغیر کی سیاست، اس کے نشیب و فراز، انگریزوں کا قبضہ اور بنگال سے بنگلہ دیش بن جانے والے تمام تر واقعات، تجربات اور مشاہدات ان کے سامنے تھے۔
بنگالی جو اس وقت ٹوٹل ملکی آبادی کے ۵۵ فیصد تھے وہ شیخ مجیب الرحمان کے 6 نقاط پر مبنی اپنے قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کر رہے تھے جن پر پاکستانی فوج کی جانب سے سفاکانہ آپریشن کر کے ان کے ۳۰ لاکھ عام لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور ۸ لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کرکے باالآخر انہیں الگ ہونے پر مجبورکردیا گیا، جس کے بعد پاکستان کے اندر جمہوری یا آئینی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والی سیاسی و قومی حقوق کی سب امیدیں ہمیشہ کے لیئے ختم یا دفن ہوگئی، کیونکہ “مشرقی پاکستان” کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی بچے ہوئے ’مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان‘ میں پنجابیوں کی آبادی ۵۸ فیصد بن گئی، جس کی وجہ سے باقی تینوں قومیں یعنی سندھی، بلوچ اور پشتون مل کر بھی جمہوری اور پارلیمانی طریقے سے پنجابیوں کی اکثریت کو شکست نہیں دے سکتی تھیں۔

سائیں جی ایم سید ان سب حقائق اور محرکات کو سامنے رکھتے ہوئے ۱۹۷۲ میں پاکستانی سیاست سے مکمل طور پر علیحدہ ہو گئے اور اپنے سندھ وطن اور سندھی قوم کے ایک بہترین و پائپائیدار دار مستقبل کے لیئے”سندھ کی تاریخی ملکی حیثیت کی بحالی” کے لئے سندھودیش کی آزادی کی تحریک کا آغاز و اعلان کیا۔

  ب : قومی فکر و نظریہ

بنگلہ دیش کی صورت میں پاکستان ٹوٹ جانے کے بعد یہ حقیقت ساری دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی کہ پاکستان جس ”1940 کی قرارداد اور دو قومی نظریہ“ کے بنیاد پر بنا تھا یا بنایا گیا تھا، بنگالیوں کے علیحدہ ہونے کے بعد وہ دونوں بنیاد اور جواز خودبخود ختم ہو گئے، اب باقی بچے ہوئے پاکستان کا بطور فیڈریشن رہنے کا کوئی بھی سیاسی، قانونی، عالمی اور اخلاقی جواز نہیں بچا تھا، عین اسی وقت رہبر ِسندھ سائیں جی ایم سید نے اہلِ سندھ کے سامنے جدید قوم پرستی کا نظریہ پیش کیا اور سندھی قوم کو بتایا کہ
”برِصغیر کے مسلمان کسی بھی طرح ایک قوم نہیں تھے، ان کو ایک قوم بناکر پیش کرنے والا ’دو قومی نظریہ جھوٹ اور فریب پر مشتمل ایک بے بنیاد نظریہ تھا، جو انگریزوں کی ’لڑاؤ اور سیاست کرو‘ (Divide and Rule) پر مبنی پالیسی کا آلہ کار بن کر کام آیا تھا۔ نہ صرف برِصغیر بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی مسلمان ’ایک قوم‘ نہیں رہے ہیں اور نا ہی ایک قوم کی من گھڑت نظریے پر مشتمل مسلمانوں کا کہیں بھی ایک مشترکہ ملک رہا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو عراق اور سعودی عرب سے لیکر یمن و مصر تک مسلمانوں کا ایک ہی ملک ہوتا، اس لیئے سرسید احمد خان کی طرف سے پیش کیا گیا ’دوقومی نظریہ‘ مکمل طور پر فرسودہ اور ناکارہ نظریہ ہے اور اس خطے میں محض انگریزوں کی سازشوں کو پایہء تکمیل تک پہچانے کے لیئے ایک آلہ کار بن کر کام آیا ہے۔

سائیں جی ایم سید مزید واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
”قومیں مذاہب کے بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے تاریخی وطنوں کے بنیاد پر بنتی ہیں. اسی طرح ساری دنیا کے اندر قوم کے لئے مروجہ جدید اصولوں کے تحت اپنے علیحدہ وطن (جغرافیائی)، زبان، تاریخ، کلچر اور سیاسی و اقتصادی مفادات کی بنیاد پر سندھ ایک علیحدہ وطن ہے، سندھی ایک علیحدہ قوم ہے، آزادی سندھی قوم کا بنیادی حق ہے اور آزادی ممکن اور یقینی ہے۔“
وہی سبب ہے کہ سائیں جی ایم سید نے اپنے علم، ادراک اور ماضی کے سارے تجربات کو نظر میں رکھتے ہوئے نہ صرف ہمیں قومی فکر دیا بلکہ اسی قومی فکر پر مشتمل ۵۲ کتاب لکھ کر سندھی قوم کو سندھ وطن کے اوپر منڈلاتے ہوئے موجودہ اور آنے والے خطرات سے بھی آگاہ و خبردار کیا،جس کی پاداش میں سائیں جی ایم سید کو زندگی کے ۳۲ سال جیل و قید کی سختیاں اور نظربندی برداشت کرنا پڑیں۔

ت : تحریک

سائیں جی ایم سید نے ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ میں اپنے اسی جدید سندھی قوم پرستی کے نظریے کے بنیاد پر ’جیئے سندھ ہلچل‘ کی بنیاد رکھی۔ جس نظریے کے بنیاد پر پہلے ’جیئے سندھ محاذ اور جیئے سندھ اسٹوڈنس فیڈریشن‘ نامی تنظیمیں اور بعد میں آگے چل کر ۱۹۹۱ میں جیئے سندھ تحریک کے نام سے ایک اور پارٹی بنائی گئی، سائیں جی ایم سید کی موجودگی میں وہ جماعتیں اپنے علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم کی صورت میں کام کرتی رہیں، جنہیں اس وقت رہبرِ سندھ سائیں جی ایم سید جیسی مضبوط شخصیت کی رہنمائی اور رہبری حاصل تھی. ۲۵ اپریل ۱۹۹۵ میں سائیں جی ایم سید کی وفات کے بعد ۲۶ مئی ۱۹۹۵ میں سائیں جی ایم سید کے ہونے والے چہلم کے موقع پر اس وقت جیئے سندھ کے نام پر کام کرنے والی سب جماعتوں نے سائیں کے بچھڑ جانے والے دکھ کو طاقت میں تبدیل کرنے اور اس وقت کے حالات و واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپس میں انضمام کیا اور ’جیئے سندھ قومی محاذ‘ (جسقم) کے نام سے ایک متحدہ اور مشترکہ پارٹی بنائی۔
جو پارٹی ۲۰۰۰ع تک سندھ کے قومی مسائل کے اوپر ایک مشترکہ اتحاد اور طاقت کی صورت میں جدوجہد کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی، لیکن اس کے بعد وہی پارٹی ایک ہی نظریہ، مقصد، رہبر اور پرچم رکھنے کے باوجود قیادت کے اندرونی انتشار، لیڈرشپ کی بھوک، سستی شہرت، ذاتی انا، خوف، لالچ اور ریاستی مداخلت کے سبب الگ الگ ٹکڑوں میں بٹ گئی۔

سائیں جی ایم سید کی وفات کے بعد جو انضمام کی صورت میں قومی تحریک کے اندر ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا ہوئی تھی یا سندھی قوم کے اندر سیاسی اور نفسیاتی طور پر ایک مشترکہ جدوجہد کا ماحول پیدا ہوا تھا اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ دیا گیا، قومی تحریک کے اوپر پاکستانی ریاستی اداروں کا یہ ایک بڑا حملہ تھا۔
کیونکہ ۱۹۹۵ میں قومی تحریک پہلے ہی سائیں جی ایم سید جیسی شخصیت اور رہبری سے محروم ہو چکی تھی اور اب لیڈرشپ اور حکمت عملی کے اختلافات کے نام پر مشترکہ قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور مشترکہ جدوجہد جیسی طاقت سے بھی محروم ہو گئی۔

جسقم کے بڑے قومی اجتماعات اور کراچی میں آزادی مارچوں میں لاکھوں سندھیوں کی شرکت اور شمولیت کے بعد قومی تحریک ایک بار پھر ریاستی اداروں کے ٹارگیٹ پر آگئی، جس ریاستی آپریشن میں قومی تحریک کے کئی رہنماء اور کارکناں شہید، گرفتار اور جبری طور پر اٹھاکر لاپتہ کیئے گئے۔
آگے چل کر ریاستی خوف، لالچ اور قومی تحریک کی لیڈرشپ کی نااہلی اور مڈل کلاس کی موقعے پرستی کی وجہ سے پوزیشن یہاں تک جا پہنچی کہ کچھ بڑی قوم پرست پارٹیوں کے لیڈر صاحبان کبھی ’مودی کے خلاف احتجاج کرتے نظر آئے تو کبھی سندھ حکومت کے خلاف، کبھی پاکستانی بلدیاتی انتخابات  کا حصہ بنتے رہے تو کبھی مہنگائی،کرپشن اور بدامنی‘ جیسے ایشوز پر احتجاج اور بیان بازی کرتے نظر آئے، حالانکہ ایسے مسائل کا سائیں جی ایم سید کے نظریے سے دور دور تک کوئی بھی واسطہ نہیں تھا۔ اس طرح قومی تحریک کی نظریاتی لائن تبدیل کرنے یا کرانے کے پیچھے ریاستی ایجنسیوں کی مداخلت، لالچ اور خوف جیسے عناصر کارفرما تھے، آگے چل کر نتیجہ یہ نکلا کہ قومی تحریک کے کافی جانے پہچانے لیڈر اور کارکنان بڑی تعداد میں سندھ کے ہر شہر سے پریس کانفرنسوں کے ذریعے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے اٹھائے ہوئے نام نہاد ’پاکستانی قومی دھارا‘ میں شامل ہونے لگے یا شامل کروائے گئے۔ مطلب کہ آج قومی تحریک کی سرفیس پر کام کرنے والی قریباََ ۱۲ پارٹیاں بنی ہوئی ہیں لیکن باوجود اس کے کوئی بھی خاطر خواہ نتیجہ دینے یا کسی طاقتور اور نتیجہ خیز جدوجہد کرنے سے محروم اور معذور بنی ہوئی ہیں، اس لئے ایک بار پھر ہم سب کو ایمانداری اور سچائی سے غوروفکر کر کے سائیں جی ایم سید کی فکری اور نظریاتی لائن پر مکمل کلیئر، واضح اور یکمشت ہو کر آگے بڑھنا ہوگا. کیونکہ ’وحدتِ فکر ہی وحدتِ عمل‘ کو جنم دیتا ہے.

ث : حکمت عملی

فکری نقطہء نظر، نظریاتی لائن اور سندھ کی آزادی کی جدوجہد پر واضح ہونے کے بعد دوسرا مرحلہ حکمت عملی یا جدوجہد کے طریقہ کار کا آتا ہے. جس کے لیئے بھی سائیں جی ایم سید نے اپنے کتابوں ’سندھودیش کیوں اور کس لئے؟، پاکستان اب ٹوٹنا چاہیے اور رہبر ‘ میں تفصیل اور وضاحت سے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ؛

سندھ کے نوجوان بنگال کی مکتی باہنی کی طرح سندھ کی آزادی کی جدوجہد کریں گے۔

وقت آگیا ہے کہ سندھ کے نوجوان مکتی باہنی جیسی مخفی تنظیمیں بنا کر خونی بغاوت کرکے سندھیوں کو آزاد کرائیں۔
’سندھیوں کو ہمت کرکے اپنی قربانیوں اور جہدِمسلسل کے ذریعے اپنے قومی وجود کو تسلیم کرانا ہے پھر حالات خودبخود حق میں ہوتے جائیں گے، اس لیئے ایک ہزار تربیت یافتہ کارکن سندھ کو آزاد کرانے کے لیئے کافی ہیں جو سامراجی طاقت کو زبوں کرنے کے لیئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

سائیں جی ایم سید مزید لکھتے ہیں کہ؛
’سندھ کے نوجوان آگے چل کر مکتی باہنی جیسی تنظیمیں بنا کر جدوجہد کریں گے اور سندھ کو پاکستان سے آزاد کرائیں گے۔‘
سائیں جی ایم سید کی بتائی ہوئی اسی حکمت عملی کی روشنی میں ہم آج کے حالات میں بہت تیزی سے جاری پنجابی سامراج کا نوآبادیاتی اور فوجی قبضہ، چائنہ۔پاکستان اکانامک کوریڈور(سی پیک)، مذہبی انتہاپسندی، وسائل کی لوٹ مار اور غیرسندھی آبادکاری جیسے تمام سندھ دشمن منصوبوں کو روک سکتے ہیں۔

ج : مشترکہ سفارتی محاذ

سندھ میں گراؤنڈ پر کام کرنے والی قومی تحریک کی تمام پارٹیوں اورسندھ سے باہر کام کرنے والی سندھیوں کی تمام تنظیموں کا آپس میں ایک “مشترکہ قومی سفارتی محاذ” کیسے بنایا جاسکتا ہے جو سندھ کی قومی تحریک کی حقیقی نمائندگی کرسکے؟
قومی تحریک کے اندر شروع سے لیکر اب تک ایک بنیادی سوال رہتا آیا ہے کہ “سندھ کی قومی آزادی کے لیئے سندھ کے اندر اور سندھ سے باہر کون کون سے منظم محاذ بنا کرکام کیا جا سکتا ہے؟ جو ‘سندھ کی آزادی کی جدوجہد اور سندھ کیس’ کو اپنی بہترین سفارتکاری کے ذریعے عالمی اداروں اور ڈپلومیٹک چئنلز تک کامیابی سے پہنچا سکیں اور جو سندھ کے اندر چلنے والی قومی آزادی کی جدوجہد کی حقیقی نمائندگی کا کردار ادا کرسکیں۔

اس وقت بھی سندھی ڈائیسپورا میں بہت سی تنظیمیں، فورمز اور انفرادی کردار ہیں جو اپنے اپنے طور پر سندھ کا کیس باہر کی دنیا میں مختلف فورمز کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں، جو خود ایک قابلِ تعریف عمل ہے، لیکن جب تک گراؤنڈ (سندھ) پر کوئی مضبوط اور منظم قومی تنظیم نہیں بنتی اور سندھ کی آزادی کی جدوجہد تیز نہیں ہوتی تب تک دنیا کے مختلف ادارے، فورمز اور ممالک سندھ کی آزادی کے کیس کو سننے اور مدد کرنے کے لیئے تیار نہیں ہونگے، اس لئے سب سے پہلے گراؤنڈ پر قومی تحریک کو مضبوط اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

ح : اردو آبادی

سائیں جی ایم سید نے اپنے کتابوں میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ’قدرت نے اردو آبادی کو سندھ جیسی دھرتی ماں کی گود نصیب کی ہے، جس کے سیاسی و اقتصادی مفادات بھی سندھ سے وابسطہ ہیں، اس لیئے اب انہیں سندھی کلچر میں ضم ہوکر سندھیوں کے ساتھ مل کر رہنا ہوگا۔‘
سندھ کی قومی تحریک کی سیاست اور جدوجہد کبھی بھی نسلی یا لسانی بنیادوں پر نہیں رہی ہے، سائیں جی ایم سید کے جدید قوم پرستی کے نظریے کے تحت سندھ کی اردو آبادی اب سندھ کی مستقل آبادی ہے، اس لیئے سندھ کی اردو آبادی کے لیئے سندھ کی قومی تحریک کی پالیسی بھی بلکل واضح ہے۔

اس سلسلے میں جب کچھ عرصہ پہلے سندھ کے اردو بولنے والے سندھیوں کے رہنماء اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے اپنے ویڈیو خطاب میں سندھ کی قومی تحریک کے طرف ہاتھ بڑھایا ہے اور سائیں جی ایم سید کے قومی آزادی کے فکر تحت سندھودیش کی آزادی کے لئے جدوجہد کا اعلان کیا ہے تو سندھ کی قومی تحریک کو بھی ان کے موقف اور پیش قدمی کی آجیاں کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں چند گذاشیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں؛

الف : قومی تحریک کا مشترکہ موقف آنے کی ضرورت

سندھ کے اردو بولنے والے سندھیوں اور ایم کیو ایم کو اس تحریک میں ملاکر سندھودیش کی آزادی کی مشترکہ جدوجہد کا طریقہ کار طے کرنے کے لیئے سندھ کی قومی تحریک کی سب جماعتوں کے پاس ’ایک مشترکہ موقف اور لائحہ عمل‘ ہونا چاہیے، تاکہ اس متعلق اب تک ایک دو پارٹیوں کی آنے والی رائے یا اپنے طور پر’سندھودیش کی جلاوطن حکومت‘ بنا دینے والے یک طرفہ بیانات کے بجائے ساری قومی تحریک کی ایک مشترکہ رائے (Consensus) بن سکے اور کوئی سنجیدہ پیش قدمی ہوسکے۔

ب :  مشترکہ جدوجہد کرنے کے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت

اصولی طور پر اتفاقِ رائے ہونا اور مشترکہ موقف آنے کے بعد دوسرا مرحلہ عملی طور پر گراؤنڈ پر جدوجہد کرنے کا آتا ہے۔
اس سلسلے میں سندھودیش کی آزادی کی جدوجہد میں اردو آبادی کی شمولیت اور مشترکہ جدوجہد کے لیئے گراؤنڈ پر موجود جیئے سندھ کی تمام آزادی پسند جماعتوں کو مل کر ایک مشترکہ جدوجہد کے طریقہ کار کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔

خ سندھی، بلوچ اتحاد

انقلاب میں جہاں اپنے دشمن کو جاننے اور پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں اپنے دوستوں، ساتھیوں، خیرخواہوں اور اتحادیوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
سندھی اور بلوچ ایک دوسرے کی پڑوسی اقوام ہونے کے ناطے نا صرف تاریخی طور پر آپس میں فطری اتحادی رہے ہیں بلکہ مختلف اوقات پر رونما ہونے والے واقعات،پاکستانی فوجی آپریشنوں، شہادتوں اور گرفتاریوں میں بھی ایک دوسرے کی حمایت، ہمدردی اور اظہار یکجہتی کرتے رہے ہیں.

اس خطے میں علاقائی طور پر دو پڑوسی قومیں اور ممالک ہونے کی حیثیت سے تاریخی طور پر سندھ اور بلوچستان کی جغرافیائی سرحدیں کراچی سے لیکر کشمور تک آپس میں ملی ہوئی ہیں، اس وجہ سے سندھیوں اور بلوچوں کے صدیوں سے آپس میں تاریخی، ثقافتی، سیاسی و سماجی روابط اور گہرے تعلقات رہتے آئے ہیں۔
اس لئے میں وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چند ضروری باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

الف : سندھ اور بلوچستان کی آزادی پسند تنظیموں کے آپس میں مشترکہ اتحاد کی ضرورت

سندھی اور بلوچ اقوام کا ایک ہی مشترکہ قومی دشمن (پنجاب) اور مشترکہ قومی مقصد (آزادی) ہونے کی وجہ سے قومی دشمن سے لڑنے اور اسے شکست دینے کے لئے آپس میں اتحاد ایک فطری عمل اور وقت کی اہم ضرورت ہے،کیونکہ دشمن سے لڑنے اور شکست دینے کے لیئے اس کے چوگرد جتنے زیادہ محاذ بنائے جائیں گے اتنا ہی دشمن کمزور ہوتا جائیگا،اس لیئے اس وقت سندھ اور بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریکوں کو مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ سیاسی، نظریاتی و انقلابی موقف اختیار کرتے ہوئے اپنی مشترکہ حکمت عملی بنانی ہوگی، جس کے لیئے آپسی قومی اتحاد و صف بندی کو مضبوط، منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

ب : سندھی۔بلوچ مشترکہ محاذ بنانے کی ضرورت

فکری، نظریاتی اور اصولی طور پر’مشترکہ انقلابی جدوجہد‘ کے نقطہء نظر پر اتفاق ہونے کے بعد سندھی اور بلوچ قومی تحریکوں کو سیاسی، سفارتی اور مزاحمتی محاذوں پر مشترکہ جدوجہد کرنے کا لائحہ عمل بنانا وقت اور حالات کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے ہی ہم اپنی فیصلا کن جدوجہد کا آغاز کر سکتے ہیں اور دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔

آپ کے سامنے یہ چند گذارشیں رکھنے کے بعد آخر میں ایک بار پھر میں سندھی قوم بالخصوص سندھ کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ سندھ کو مستقل طور پر پاکستان کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیئے ہم سب کو مل کر سائیں جی ایم سید کے فکر، جدوجہد اور کردار سے ہم آہنگ اور یکمشت ہو کر پوری سچائی، ایمانداری، مضبوطی اور بہادری سے آگے بڑھنا ہوگا. کیونکہ سائین جی ایم سید کا فکر ہی ہمیں اپنے آزاد سندھودیش کی منزل تک پہنچا سکتا ہے.
آخری فتح یقینی طور پر حق، سچ اور سید کے فکر کی ہی ہونی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔