راشد مفرور یا گرفتار؟ – برزکوہی

435

راشد مفرور یا گرفتار؟

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

چھبیس دسمبر 2018 کی ایک صبح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین متحدہ عرب امارات میں جلا وطنی کے دنوں کے دوران اپنے ایک کزن کے گھر سے مزدوری کے غرض سے کام پر روانہ ہوتا ہے، تو انکی گاڑی بیچ راستے روکی جاتی ہے، بغیر وارنٹ اماراتی خفیہ پولیس انکی تلاشی لیتی ہے اور راشد حسین کی شناخت کرکے اسے اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ اسکے کزن اسے ڈھونڈنے پولیس اسٹیشن جاتے ہیں، لیکن وہاں اسکا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا اور اسکی گمشدگی کی رپورٹ درج کی جاتی ہے۔

کچھ دن بعد راشد حسین کے کزن کے گھر پر فورسز بھاری تعداد میں راشد حسین کو ہتھکڑیاں لگائے لاتے ہیں۔ گھر میں موجود خواتین و بچوں کو زدوکوب کرتے ہیں، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ راشد حسین کا پاسپورٹ انہیں دیا جائے۔ پاسپورٹ نا ملنے پر گھر میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اور موجود افراد پر تشدد کرتے ہیں۔ اور دھونس و دھمکی دے کر چلے جاتے ہیں۔

عرب امارات کے خفیہ پولیس کے تحویل میں راشد حسین کو چھ مہینے تک رکھا جاتا ہے، ان چھ مہینوں کے دوران پاکستان کے مشہور صحافی اور جیونیوز کے اینکر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں دبئی سے راشد بلوچ کی گرفتاری کی تصدیق کی جاتی ہے اور 3 جولائی 2019 کو پاکستانی میڈیا کم از کم تین بار یہ نیوز بریک کرتی ہے کہ راشد حسین کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

پاکستانی حکام میڈیا میں راشد کی پاکستان منتقلی کی تصدیق کرتے ہیں اور عرب امارات امیگریشن سے راشد کو ڈی پورٹ کرنے کا ایک لیٹر بھی موصول ہوتا ہے۔ جس میں راشد کو دبئی بتین ائرپورٹ سے پرائیوٹ طیارے کے ذریعے نوشکی بلوچستان شفٹ کرنے کی معلومات درج ہوتی ہیں۔

ان تمام معاملات کے بعد راشد حسین کی شیر زال و بہادر ماں تمام نیوز چینلوں پر چلنے والے ان خبروں کی تصاویر کو ہاتھ میں لیئے اپنی نواسی گودی ماہ زیب کے ہمراہ سڑکوں پر احتجاج شروع کردیتی ہے اور کوئٹہ میں موجود لاپتہ افراد کے کمیشن میں بھی تمام کاغذات کے ساتھ ٹی وی پر چلنے والے نیوز اسکرین کے تصاویر بھی جمع کراتی ہے۔ مادر راشد اپنے شہزادہ لختِ جگر کی درد و کرب کو لیکر اس کی بازیابی کے لیئے کبھی کوئٹہ کی یخ بستہ ہواؤں میں دیوانہ وار ملنگوں کی طرح سڑکوں پر نظر آتی ہے، تو کبھی کراچی شہر کی خواب غفلت میں مدہوش فضاء میں ماں و ماہ زیب آپ کو ایسے بے آسرا ملتے ہیں کہ آپ سوچتے ہونگے کہ پورے کراچی شہر کے تمام بلوچوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، قومپرستوں، نام نہاد سوشلسٹوں اور صحافیوں کو کوئی سانپ سونگھ چکا ہے۔

بہادر ماں اور گودی ماہ زیب بھی سوچتی ہونگی کہ انکے اردگرد چلتے پھرتے یہ لاش زندہ ضرور ہیں، لیکن سب نے اپنے اپنے اندر احساس، انسانیت اور ضمیر کا جنازہ اٹھایا ہوا ہے۔ انکا وجود کچھ نہیں سوائے ایک جنازے کے۔ اور یہ جو مقدسیت کا چولہ پہنے خود کو صحافی کہتے ہیں، جو سچ کے علمبردار بن کر پھرتے ہیں، جن کے اخباروں یا چینلوں سے چار اشتہار غائب ہوجائیں تو یہ گلہ پھاڑ کر چیختے ہیں، لیکن زندہ انسانوں کے صفحہ ہستی سے گم ہوجانے تک سے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انکا سچ کوٹھے کے اس طوائف کی طرح ہوچکا ہے، جو پیسہ پھینکے وہاں انکا سچ گھنگرو پہن کر انکے مرضی کا رقص شروع کردیتی ہے اور کہاں کے مقدس؟ یہ اس پیشے کو بدبودار محلوں کی ایسی نوکری پر لگاچکے ہیں کہ اگر کسی انسان کا اب ضمیر زندہ ہے وہ خود کو صحافی یا اینکر پرسن کہنے سے کتراتا ہے۔ یہ دن رات پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج کے افسروں و اہلکاروں کے جوتوں کو چاٹنے و سجدہ کرنا اپنا دین و دھرم جان چکے ہیں۔

راشد حسین کے اغواء پر ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اماراتی حکومت کو خط لکھ کر مطالبہ کرتی ہے کہ انہیں انکے اہلخانہ سے ملاقات کرنے دیا جائے۔ باہر ممالک انکیلئے احتجاج بھی ہوتے ہیں۔ یہ تمام عوامل ایک جانب اشارہ کرتی ہیں کہ گواہ و ثبوت موجود ہیں اور خود پاکستانی میڈیا و حکام کی تصدیق ریکارڈ پر موجود ہے کہ اب راشد حسین پاکستانی خفیہ اداروں کے تحویل میں ہے۔

لیکن ان تمام ثبوت و شواہد کے باوجود 16 اپریل 2020 کو کراچی میں پاکستان کے انسدادِ دہشتگردی کی ایک عدالت راشد حسین کو کراچی قونصل خانے کا ایک ملزم قرار دیتے ہوئے انہیں مفرور قرار دیتی ہے۔

16 اپریل ایک بار پھر پاکستانی عدالت کی جانب سے عرب امارات سے گرفتار اور پھر عرب امارات کی طرف سے راشد کی غیرقانونی و غیر انسانی اور چوری چھپکے پاکستان کے حوالگی، اس طویل عرصے کے بعد پاکستانی عدالت کی جانب سے راشد حسین کو مفرور قرار دینا، عدالتی نظام، انسانیت، صحافت اور خاص طور پر عرب امارات کے منہ پھر ایک زور دار طمانچہ ہے۔

پاکستانی میڈیا اب سینہ تان کر بڑے فخر سے راشد کو مفرور قرار دینے میں پیش پیش نظر آرہی ہے۔ وہی میڈیا جو اسکے گرفتاری و ڈی پورٹ ہونے کی خبریں نشر کرتی رہی ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی صحافی و اینکرپرسن یا کوئی غیرجانبدار، صحافت کے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ادارہ نہیں جو یہ سوال اٹھائے کہ 3 جولائی 2019 کو وہ کون سا راشد تھا جس کو پاکستان منتقل کیا گیا؟ کیونکہ اس دن تمام میڈیا خود اس خبر کو پورا دن چلاتا رہا اور پاکستان حکومت بھی تصدیق کرگیا؟

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک بار پھر راشد حسین کو پاکستان کی عدالت کے طرف سے مفرور قرار دیکر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنا اور پاکستانی میڈیا کا اپنے 3 جولائی کے کہے پر خاموشی اور ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں اور دعویداروں کی خاموشی، خود سوالیہ نشان کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج اور خفیہ ادروں کے ساتھ ہمرکابی و شراکت داری کی نشاندہی نہیں کررہا ہے؟

دوسری طرف عرب امارات و عرب قوم سے بلوچوں کی طرف سے یہ سوال ہمیشہ رہیگا کہ آج تک پوری بلوچ قوم خاص طور پر راشد حسین نے عرب امارات و عرب قوم کو آخر کیا نقصان دیا ہے کہ وہ راشد حسین جیسے باشعور و زیرک نوجوان کو اتنی آسانی کے ساتھ پاکستان جیسے انسانیت و تہذیب سے عاری ظالموں کے حوالےکرنے پر راضی ہوئے؟ راشد کا گناہ و سزا اور قصور کیا تھا؟ راشد کا قصور یہی تھا کہ وہ پاکستان اور پنجابیوں کی درندگیوں سے بچ کر عرب امارات و عرب قوم کو بلوچوں کا برادر قوم اور جانوں کا محافظ جان کر وہاں پناہ ڈھونڈنے آیا تھا؟

راشد حسین کے حوالے سے پاکستان کی خفیہ ادروں کے فیصلے کو نام نہاد عدالتی فیصلے کے ذریعے انکی اغواء نما گرفتاری سے شرمناک و بزدلی کے ساتھ انکار کرنا، ایک بار پھر ہمارے اس اندیشے اور شک کو حقیقت ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اپنے دیرینہ و مکارانہ فارمولے کو اپنا کر کوئی ڈرامہ رچائے گا، اور یہ ظاھر کرے گا کہ راشد کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپہ مارا گیا ہے اور جھڑپ میں راشد مارا گیا ہے۔ پھر وہ سیاہ دن عرب امارات و عرب قوم، صحافت و انسانیت کے دعویداروں کی پیشانی پر ایک سیاہ دھبہ ہوگا۔

ہم یہی سمجھتے ہیں کہ عرب قوم پنجابی کی شاطردماغی و مکاری اور چالاکی کے سامنے مات کھاچکاہے۔ بلوچستان مستقبل میں عربوں کے لیئے اور عرب امارات بلوچوں کے لیئے دوسرا گھر نہیں بلکہ مقتل گاہ بن جائے گا۔

بلوچ ہزاروں سالہ تاریخ رکھنے والی ایک قوم ہے، ان ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ پر ہم پر کئی بار زوال کے سائے منڈلاتے رہے اور ہم نے کئی بار بامِ عروج بھی دیکھا۔ ان تمام نشیب و فراز کے باوجود آج بھی بلوچ ہے اور لڑرہا ہے۔ آج ایک اور زوال صحیح، لیکن سالوں یا دہائیوں میں بلوچ اس مرحلے سے بھی گذر جائے گا۔ اس قوم کو نوید آزادی سننی ہے اور خوشحالی کے سورج کو طلوع ہوتے دیکھنا ہے اور ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، ہمارا مزاج، ہمارا مزاحمت اور ہمارے مقتلوں کو سجانے کا ہنر اس بات کی بھرپور دلالت کرتا ہے کہ اس صبح نو کو جلد یا بدیر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن آج کے دور غلامی و زوال کے دنوں میں جو قوم و ملک ہمارا ہمدرد ہوگا، ہمارا دوست ٹہرے گا یا پھر ہمارے خلاف ہمارے دشمن کا ہمرکاب ہوگا۔ یہ سب ہمارے اجتماعی حافظوں میں نقش رہے گا۔ جہاں بلوچ ایک پیالے پانی کی قیمت سو سالہ وفا کی صورت چکاتے ہیں، وہیں بلوچ کا “لَٹھ” عیوض کبھی پرانا نہیں ہوتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔