جی ایم سید کا فکر و فلسفہ سندھی سمیت تمام قوموں کی رہنمائی کرسکتی ہے – خلیل بلوچ

232

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے قوم پرست رہنماء جی ایم سید کی پچیسویں برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا جی ایم سید نے جدید سندھی قوم پرستی کے احیا میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے سندھو دیش کی آزادی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیئے۔ ان کا نظریہ اور فلسفہ حیات سندھ قومی آزادی کا مضبوط قلعہ ہے۔ جی ایم سید کا فکر و فلسفہ سندھی سمیت تمام محکوم اور مظلوم قوموں کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ بلاشبہ سندھی قوم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ایک آزاد سندھو دیش کا قیام عمل میں لاسکتا ہے ۔ آج ان کی پچیسویں برسی کے موقع پر ہم انہیں خراج پیش کرتے ہوئے سندھو دیش کی آزادی کے لئے برسرپیکار دوستوں کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ بلوچ سندھودیش کی آزادی پر غیر متزلزل یقین اور امید رکھتے ہیں اور جب بھی سندھی مدد کے لئے پکارتے ہیں تو ہمیں اپنی شانہ بشانہ پائیں گے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا جی ایم سید کی زندگی سیاست اور قوم پرستانہ نظریات سندھی قوم کے لئے مشعل راہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے یہ ادراک کرلیا کہ مذہب کے نام پر جو ریاست وجود میں آچکا ہے وہ مذہب کی آڑ میں تمام قوموں کی سرزمین، تشخص اور وسائل کو ہڑپ لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سرزمین سندھ پر وہ پہلے رہنماء تھے جنہیں پابند سلاسل کیا گیا اور ریاست نے بربریت کا آغاز اپنے محسنوں سے کیا لیکن تاریخ کی عدالت میں سائیں جی ایم سید سرخ رو ٹھہریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سائیں جی ایم سید کی سیاسی سفر میں نشیب و فراز ضرور آئے لیکن ہر دور میں قوم پرستی کا جھلک نمایاں ہے۔ اپنے اکانوے سالہ زندگی میں انہوں نے بتیس سال جیلوں میں گزارے اور سندھی قوم کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیئے۔ انہوں نے خلافت تحریک، انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک، سندھ ہاری کمیٹی کا قیام، سندھ ادبی بورڈ کا قیام، سندھ یونیورسٹی کا قیام اور بھٹ شاہ کلچرل سینٹر جیسے مختلف علمی ادبی اور سیاسی کام کیئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے دو قومی مذہبی نظریے کی مخالفت، مضبوط مرکز یا وفاق کی مخالفت، آمریت کی مخالفت کرنے کے علاوہ جمہوریت، سیکولرزم اور سندھی قوم پرستی کے لئے لڑتے رہے۔ لیکن 1972 کے بعد اپنی دوران قید موت تک سندھو دیش کی آزادی کے اٹل فیصلے کے ساتھ ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ موہنجودڑو کی تہذیب کے مالک سندھی قوم تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔ سندھ سرزمین اپنے صوفیانہ نظریات کی وجہ سے امن اور بھائی چارگی کا سبق دیتا ہے۔ یہ نظریات خطے میں امن اور بقائے باہمی کا ضامن ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان نے اپنے بنیاد پرستانہ نظریات اور مذہبی جنونیت سے سندھ کے صوفیانہ نظریات پر یلغار کردیا اور بلوچستان کی طرح سندھی سیکولر اقدار کو بھی مسخ کرنے کے لئے انسان دوست نظریات کی بیخ کنی کی۔ یہ سندھی اور بلوچ قوم کا اپنے سرزمین اور اقدار سے محبت کی انتہا ہے کہ پاکستان اپنے عزائم میں ناکام ہے۔ یہ قومیں پاکستان کی بربریت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آزادی کے لئے برسرپیکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اور سندھی تاریخی، سیاسی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ سندھ سرزمین پر بلوچ ایک بڑی اکثریت میں ہیں جن کا جینا مرنا اسی سرزمین پر ہے۔ انہیں اسی احساس کے ساتھ سندھودیش کی آزادی کے لئے تاریخی کردار کرناچاہئے۔ جی ایم سید کا فکر و فلسفہ سندھی سمیت تمام محکوم اور مظلوم قوموں کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ بلاشبہ سندھی قوم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ایک آزاد سندھو دیش کا قیام عمل میں لا سکتا ہے۔

بی این ایم چیئرمین نے کہا کہ آج بلوچ جس صورت حال سے دوچار ہیں، سندھی بھی ایسی ہی سنگین نسل کشی اور استحصال سے دوچار ہیں۔ بلوچ، سندھی اور پشتون کئی ہزار سال کی تاریخ اور تہذیب کے مالک ہیں لیکن پاکستانی قبضہ اور غلامی کے بعد ہم سب کی شناخت شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بلوچ، سندھی اور پشتون قوموں کو قومی آزادی کے لئے آواز اٹھانے کی جرم میں نسل کشی کا سامنا ہے ۔ پاکستان کے ہاتھوں ہزاروں افراد بلوچستان، سندھ اور پشتونخواہ میں شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں لاپتہ ہیں اور لاکھوں افراد متاثر ہوچکے ہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ جی ایم سید جیسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ہمیں ان کی تعلیمات و فلسفہ سے استفادہ حاصل کرکے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہونا چاہئے ۔ ہمیں ایک مشترکہ دشمن کا سامنا ہے ۔ پاکستان خطہ سمیت پوری انسانیت کا دشمن ہے ۔ ہ یں اس مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق کا دامن پکڑ کر اپنی جد و جہد کو توانائی و طاقت دینی چاہیئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن انسانی اقدار سے محروم ایک درندہ ہے۔ اس مشترکہ دشمن سے مقابلہ اور اپنی قومی آزادی،قومی وجود کی بقاء کے لئے مشترکہ محاذ اوراتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمیں اس جانب عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے –