تیس جون اور لہو میں لتھڑا مشکے
تحریر: کینگی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ زندگی کنتی ظالم شے ہے، جو مکمل انسان کے جیتی ہوئی باز کو ہرا دیتا ہے، زندگی ایک بار انسان کو ستاتا ہے پھر ان کو ان کی اصلیت ظاہر کرتا ہے، پھر وہ آدمی حیران رہ جاتا ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ تب وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ اس کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے، پھر ان کے ہر قدم کے سامنے رکاوٹ پیدا کرتاہے، انسان اپنے آپ سوچنے لگتا ہے زندگی مجھ سے امتحان کیوں لے رہی ہے؟
ماں باپ کتنےعظیم ہوتے ہیں،ایک بچے کے لئے ان کا سہارا صرف ماں باپ ہوتے ہیں، میں بھی ایک بچہ ہوں، مگر میں اپنے زندگی میں بہت سارے سپنے کھو چکا ہوں۔ میرے لئے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی ایک جیسی ہے، کبھی کبھار مجھے ایسا لگتا ہے، میری زندگی میں خدا نے صرف اندھیرا ہی لکھا ہے، جس میں روشنی کا ہونا ایک خواب جیسا ہے۔ جب انسان بالغ ہوتا ہے وہ اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں، جو چاہیے وہ کرسکتے ہیں، کچھ لوگوں کے لئے زندگی کتنا خاص ہوتاہے، اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیئے جو چاہیے وہ کرسکتے ہیں، مگر کچھ لوگ زندگی کے لئے ترستے رہتے ہیں۔
میں بھی چاہتاہوں میں کچھ کروں، اس دنیا میں ہماری زندگی کی اہمیت کیا ہے؟ ہر بندہ چاہتا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے ماں باپ ہوں اور ماں باپ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے لخت جگر ہمارے پاس ہوں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوں۔
میں بھی چاہتا ہوں کاش میرے پاس میرے ماں باپ ہوتے، میری زندگی کتنی خوبصورت ہوتی۔ جب میں کسی اور کو دیکھتا ہوں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں تو میں میرے آنسو ٹپکنا شروع کرتے ہیں اور میرے دل کی آہ عرش عظیم کو چھو لیتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ میں بھی چھوٹا سا بچہ ہوں تو میرے ساتھ کوئی کیوں نہیں کھیلتا ہے؟ جب میرے پڑھنے کی عمر تھی تو میں لوگوں کی طرح کیوں ایک جگہ پڑھ نہیں سکتا تھا؟ میرا بھی دل چاہتا ہے، میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیلوں، میں اپنے باپ کو غور سے دیکھ لوں۔
جب میں بہت چھوٹا تھا، تو میں جہاں اپنے بابا کو دیکھتا، میں دوڑتا چلا جاتا کہ میرا بابا آگیا ہے، اس لمحے میں بہت خوش ہوا کرتا تھا۔
بد قسمتی سے ایک دن ایسا بھی آگیا کہ میرے بابا مجھے سے بہت دور چلے گئے، وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے صبح کے پانچ بجے تھے، جس دن بابا جان شہید ہوئے اور میں اپنے ماں سے بھی جدا ہو گیا۔
صبح کے پانچ بجے جس دن میرے بابا مجھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے اُس دن سے لے کر آج تک ہر روز میں صبح کے پانچ بجے اُٹھتا ہوں اور ہر روز میرے کانوں میں ہر طرف وہی گولیوں کی آوازیں ہیں۔
اب مجھے اپنے آپ سے ڈر لگنے لگا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہوں، پھر مجھے بہت دکھ محسوس ہوتا ہے، میرے بابا کو پانچ سال مکمل ہوچکے ہیں، وہ ہم سے دور چلے گئے اور بدقسمتی سے میں اپنے بابا کے قبرپہ جا نہیں سکتا، اس دن کو میں کبھی بھول نہیں سکتا وہ میری خوشیوں کا آخری دن تھا۔
29 جون کو ہم آرام سے ایک خوشحال زندگی گذار رہے تھے، اور ہمیں یہ پتا نہیں تھاکہ آنے والا کل ہمارے لئے ایک عام دن نہیں ہوگا بلکہ آنے والا کل ہمارے لئے اپنے دامن میں مصیبتوں سے بھری ہوئی زندگی لانے والی ہے۔ ہمیں یہ پتا نہیں تھاکہ دشمن پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان وہ جنگ کبھی جیت نہیں سکتا، جس میں دشمن اپنے ہوں اور اس جنگ میں زیادہ تر دشمن ہمارے اپنے تھے، ہمارے گھر کے تھے، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہمارے اپنے ہی ہمیں مارنے کے لئے تیاربیٹھے ہیں۔ وہی آستین کے سانپ تھے، جنہیں میرے بابا نے رات کو کھانا کھلایا تھا، صبح ہوتے ہی انہوں نے پاکستانی فوج کو میرے بابا کے بارے میں بتایا تھا اور اگلے دن یعنی30جون کے صبح پانچ بجے پہلے گولی کی آواز آئی جو مجھے آج بھی یاد ہے، ہم سب گھر میں آرام سے سو رہے تھے اور ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ فوج نے پورے گاؤں کو گھیرے میں لیا ہے، جب گولیوں کی گھنگرج شروع ہو ئی تو ہم وہاں سے نکل گئے۔
رات کو جب میں بیٹھا ہوا تھا، تو میرے بابا کے دو دوست آگئے، میں سب سے پہلے پہنچ گیا اور پوچھا ابو جان کہاں ہے؟ کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا اور میں دوبارہ گھر کے اندر چلا گیا، کچھ دیر بعد رونے کی آوازیں شروع ہوئیں، میں گھبراتے ہوئے باہر نکل گیا، پھر سے پوچھا اور اس بار کسی نے مجھے بتایا کہ بابا شہید ہو ئے ہیں۔ اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کیا کروں نا رونے کودل کررہا تھااور ناہی کچھ بات کر سکتا تھا، میں حیرانی و پریشانی کے عالم میں رہ گیا اور ماں کو روتے ہوئے دیکھ کر میرے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، میرے دل میں آگ لگا ہوا تھا۔
اُس دن کے بعد میں 30جون کومیں اپنے زندگی کا کالا دن سمجھتا ہوں، کیوںکہ وہ دن ایک گھر میں رہ گیا اورمیرے سامنے بابا جان سمیت 13 لوگ شہید ہوئے۔ 30جون 2015۔ یہ وہ دن تھا جس دن پاکستانی فوج نے مشکے کے گاؤں مہیئی پر حملہ کیا پہلے پہل فوج نے گاؤں کے آس پاس کے پہاڈوں پرگن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گولہ باری شروع کی، پھرذمینی فوج نے عام آبادی پر دھاوا بول دیا اور گھروں کو جلانا شروع کیا۔ اس دن 13بلوچ فرزند وطن کی دفاع کرتے ہوئے مادر زمین کے آغوش میں مسکراتے مسکراتے سو گئے۔ جن میں شہید شہیک بلوچ اور اُس کے ساتھ 12 اور زمین کے فرزند شامل تھے۔
کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے، گاؤں کو راکھ بنا دیا گیا، پاکستانی فوج نے شہید ہونے والے بلوچوں کی لاشوں کو اپنے ٹرکوں کے پیچھے باندھ دیا اور بدلہ لینے اور دیہاتیوں کو ڈرانے کیلئے کئی میل دور تک انکی لاشوں کو گھسیٹا گیا۔ آپرشین ہونے کے بعد پورے گاؤں والے خوف زدہ اور بے یقینی کا شکار بن گئے اورپاکستانی فوج نے بلوچ آزادی پسند نوجوانوں کو بڑی بے رحمی سے شہید کر دیا اور جس جس کو شہید کیا اُن لوگوں کی لاشوں کو خود دفن کردیا اور گاؤں کی عورتوں کو گھروں میں محصورکیا اور کسانوں کو اُن کے گھروں سے نکال دیا اور لوگ در بدری کی زندگی گذارنے پہ مجبور ہوگئے اور پاکستانی فوج نے اُس گاؤں کے اسکول کو اپنے کیمپ میں تبدیل کردیا۔
یہ تمام چیزیں اس وقت قیامت کے مناظر پیش کر رہے تھے اور اس دن سے لے کر آج تک مشکے اور خاص کر مہیئی کے باسی اس قیامت نما دن کو روز قیامت تک نہیں بھولیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔