تحریک آزادی اور بلوچ خواتین
حکمت یار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں اگر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر انسان کو محض انسان ہی سمجھا گیا ہو اور اسے جنسی تفریق کا سامنا نہیں رہا تو وہ معاشرہ یقیناً کامیابی سے یک جان دو قالب ہوکر تندہی سے اپنے حقوق و فرائض انجام دے کر غیر معمولی کارنامہ سر انجام دے سکتا ہے۔ تاریخ عالم میں انسانی زندگی کا سب سے اہم کارنامے کا سہرا عورت کے سر ہے۔ وہ کارنامہ بیج کی دریافت ہے۔ جس نے انسانی زندگی کو جنگلوں، غاروں سے اٹھا کر دریاؤں کے کنارے آباد کرکے انسانی معاشرے کی بنیاد ڈالی۔ ذاتی ملکیت سے جنم لینے والا جنسی خلا بھی پُر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ذاتی ملکیت کا ابتدائی دور سے لیکر آج تک عورت کو کمتر سمجھا گیا۔ اس عمل میں تمام طبقہء فکر کے لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ یہ عمل آج بھی جاری ہے مگر باوجود اسکے عورت کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہے۔
بلوچ تحریک کے حوالے سے بھی کئی نام سامنے آتے ہیں۔ مگر انکا دور تقسیم ہند سے قبل کی ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد بلوچستان کا جبری الحاق، فوجی آپریشن، مسخ لاشیں اور موجودہ دور تک ہونے والے نوآبادیاتی ظلم و بربریت کے خلاف مزاحمت میں بلوچ خواتین کہاں کھڑے ہیں؟ زرینہ مری سے لیکر لمہ یاسمین تک بلوچ تحریک کے عورتیں کسی نہ کسی صورت مزاحمت کے عمل میں شریک رہے ہیں۔ مگر کیا قربانی کا فریضہ چند مخصوص عورتوں (خاندانوں) کو ہی انجام دینا ہیں۔ اگر ہاں تو تحریک کا مستقبل مخدوش صورتحال سے دوچار ہوگا۔
لیکن بابا مری کے قول کے مطابق کہ ” تحریک کو رکنے نہیں دینا۔ اگر یہ زنجیر ایک بار ٹوٹ گیا تو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا”
اس زنجیر کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیئے بقول لینن ہمیں فکری انقلاب لانا چاہیے۔ اور یہ انقلاب آپ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ برپا کرسکتے ہیں۔ مخلص ہونا شرط ہے۔
اگر چند ہزار کی تعداد میں بسنے والے ہزارہ برادری میں جلیلہ حیدر پیدا ہوسکتی ہے۔ تو پھر بلوچوں میں ماہ رنگ اور حوران کس درد کی دوا ہے؟ ڈاکٹر صبیحہ کیوں پیچھے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ ، حوران، ڈاکٹر صبیحہ کو عملی میدان میں آکر ایک فکری انقلاب برپا کرنی ہے۔ اگر واقعی وہ بلوچ قوم سے مُخلص ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔