آخری گولی کا فلسفہ
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
وہ جواں مرد، عالی ہمت، جی دار اور فوجی کتاب۔ وہ جری، سوربیر، ارسلان اور باسل۔ لیکن اسکا مزاج کامل ادھینتا، درماندگی، خاکساری، عجزو انکساری اور نیاز آگینی۔ وہ ظلمتوں میں عطسہ شب، سائبانِ سیمابی، وہ بامداد اور وہ ہی صباح، وہ بھور اور وہی پگاہ۔ آرام کشی کو “اوارون” کے بغیر رخصت کرنے والا وہ جفاکش، کوشاں، ساعی اور اجیر۔ بہی خواہوں کیلئے مہربان، التفات، مشفق، محب و مربی۔ عدو کیلئے پرکالہ آفت، غضب، کرودھ اور قیامت خیز۔ وہ ذکی، وہ فطین، وہ سرہنگ، وہ کمانیر، وہ سالار، وہ زعیم، صرف اور صرف وہ ہی ” امیر”۔
وہ نہ جھکنے والوں میں سے تھا، اور نہ بکنے اور ٹوٹنے والا شخص، اسکی خمیر میں حالات و کیفیت کا شکار ہونا نہیں تھا بلکہ اسکا تعلق اس قبیل کے انسانوں سے تھا، جو وقت و حالات اور کیفیات کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہر وقت متحرک و ایماندار، بے انتہاء مخلص و عاجز، قومی آزادی کی جنگ میں بہادری کے ساتھ پیش پیش، قدم رواں دواں، توتک سے اٹھنے والی یہ آواز، دشمن کے لیئے قہر و جبر امیر ملک ہی ہوسکتا ہے۔
میں جتنے بھی اسم صفات امیر کے شخصیت و کردار کے احاطے کی کوشش میں پرنوں پر بکھیرتے جاؤں، لیکن اس دیو ہیکل کردار کے تعین کی کوشش میں الفاظ بے معنی ہوکر اپنا سا منہ لیکر بیٹھ جاتے ہیں، اور سب کہا کھوکھلا معلوم ہونے لگتا ہے۔
کون آج کا دن 7 اپریل بھول سکتا ہے، جب امیر آج کے ہی دن شور و پاردو کے سمسوک جل و چر میں تاریخ رقم کرگئے، اگر آپ کہیں امیر اپنی محنت، مخلصی، احساس ذمہ داری، دلچسپی کے فلسفے کی بنیاد پر بلوچ آزادی کی جنگ میں پوری ایک نسل کو تیار کرگئے تو غلط نہیں ہوگا۔ آج بھی پرجوش کارواں میں امیر کی تخلیق، جوش و جذبہ، ہمت اور فلسفہ ہر قدم پر نظر آتا ہے۔
یوں تو ہر اس شہید رہبر کی زندگی و کردار کا احاطہ الفاظ میں کرنا جوئے شیر لانے کا مترادف ہے، جس نے تاریخ کی دھارا بدلنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں قطع نظر کامیابی و ناکامی کے خود وقت سے بڑے ہوگئے۔ لیکن میں یہ محسوس کیئے بنا نہیں رہ سکا اس پائے کے ہستیوں میں امیرالملک ایک ایسا نام ہے، جسکے کردار کے اعلیٰ قدری سے کوئی انکاری نہیں، جس کے قصے ہر محفلوں میں زبان پر ہوتے ہیں، جسکا طریق ہر نوجوان سرمچار کا وداع لینے کا خواب ہے لیکن پھر بھی سب سے کم اس پر لکھا گیا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
اسکی سب سے بڑی وجہ امیر کا مزاج اور امیر کا طریق تھا۔ امیر کو لکھنا مشکل ہے، کیونکہ امیر چند ایک بڑے واقعات کا نام نہیں ہے، امیر چند ایک متاثر کن اقوال زرین نما کلمات کا نام نہیں ہے، امیر چند ایک قربانیوں کا نام نہیں ہے، امیر چند ایک دشواریوں کا نام نہیں ہے کہ جن کو چیدہ چیدہ، پیرا با پیرا آسانی سے قلمبند کرکے امیر کو بیان کردیا جائیگا۔ بلکہ امیر مسلسل روزانہ، بلا ناغہ، بغیر جھجھکے، بغیر شکایت کیئے سورج کی پہلی کرن سے رات کے آخری گھاٹ تک سالوں تک کام کرتے جانے کا نام ہے۔ کیونکہ امیر گھربار، بھائی، رشتہ دار و خاندان سب لٹانے کے بعد ہر روز ایسی مسکراہٹ کے ساتھ آپ سے ملنے کا نام ہے اگر کوئی اسے نہیں جانتا ہو تو اسے یہ گمان گذرے کہ اس شخص نے زندگی میں کبھی دکھ کا چہرہ ہی نہیں دیکھا۔
امیر مختلف انسان تھا، وہ اپنے تکلیف اور قربانیوں کو ظاہر کرکے ہمدردی بٹورنے کے بجائے انہیں مسکراہٹ میں چھپانا بہادری سمجھتا تھا۔ وہ سخت محنت اور مسلسل محنت پر یقین رکھتا تھا اور وہ یہ بغیر ظاھر کیئے خاموشی سے کرتا جاتا۔ ایک دفعہ ایک ہی کام کا تذکرہ امیر اور ایک اور ساتھی الگ کررہے تھے۔ میں نے پہلے دوسرے ساتھی کو سنا تو ایسا لگا کہ کوئی جوئے شیر کھود کر لایا گیا ہے، پھر امیر سے اس کام کا سنا تو اس نے چار جملوں میں ایسے بیان کیا، جیسے وہ کھانا کھانے ک بعد ہاتھ دھونے کا اپنا قصہ سنا رہا ہو۔ میں نے از راہ اشتیاق اس سے دونوں بیانوں کے تضاد کا وجہ پوچھا تو اس نے جو وجہ بتائی میرے خیال میں وہ امیر کو بیان کرتا ہے ” اکثر دوست کوئی کام کرتے ہیں تو وہ جتنا مشکل ہوتا ہے، اس سے زیادہ بڑھا چڑھا کر اسلیئے پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اتنا مشکل کام کرکے وہ اتنا ہی اہم اور خاص ہوگئے ہیں اور انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینا ہر عام و خاص کے بس کی بات نہیں، میری کوشش ہوتی ہے کہ میں حقیقت بتاؤں، بلکہ شاید ہم نالائق ہیں، ہمیں زیادہ کوشش کرنی پڑی اگر کوئی لائق بندہ ہوتا، وہ اور زیادہ آسانی سے یہ کام کردیتا، اسلیئے میں اور زیادہ آسان بتاتا ہوں تاکہ ہر بلوچ کو لگے کہ یہ کام کرنے کیلئے کسی ہیرو کی ضرورت نہیں، کچھ خاص ہونے کی ضرورت ہیں بلکہ ہر کوئی آسانی کے ساتھ چاہے کرسکتا ہے، تاکہ لوگ اس کام کو دشوار سمجھ کر ڈریں نہیں۔ میں لوگوں کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ پہاڑوں میں بھوک پیاس بھی ہے، میں انہیں وہ قصے سناتا ہوں جب ہم پہاڑوں میں سجی بناتے ہیں، “پہوالوں” سے خالص لسی، مکھن، دیسی گھی لیتے ہیں جو کبھی شہروں میں نصیب ہوتا۔”
امیر تحریک میں مینار بن کر دور سے دِکھنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ بنیاد بننے کو زیادہ اہم سمجھتے تھے، ایک ایسی تحریک جس میں خودنمائی، خواہش لیڈرشپی، دبدبہ اور ہیروازم کے شوق کا بول بالا ہو وہاں ایسی سوچ شروع دن سے رکھنا۔ خود ظاھر کرتا ہے کہ امیر کیا تھا۔ امیر کے دوست کہتے ہیں کہ جب تک امیر تھا تو وہ صبح صادق کام سے نکلتا اور پھر رات کا کھانا ساتھ کھاتے۔ اسے کبھی دن کا کھانا ساتھ میں کھاتے نہیں دیکھا۔ بس نمکو کا ایک تھیلا اور پانی کا ایک بوتل اسکے ساتھ ہوتا تھا۔ اس پر اکثر اسے دوست مزاق میں چھیڑ کر نمکو پکارتے۔ ہمیں پورا پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کررہا ہوتا۔ لیکن جب وہ شہید ہوگیا، اسکے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ اس ایک شخص نے اکیلا آسمان اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا، ہم ایسے بکھرے کہ ایک طویل عرصہ تو ہمیں صرف یہ سمجھنے میں لگ گیا کہ وہ ایک انسان اتنے زیادہ کام کیسے کیسے کرتا تھا، اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ کام دوسرے سنبھالنے کے لائق ہوئے۔
میں ہزاروں ایسی چھوٹے بڑے واقعات بیان کرسکتا ہوں، لیکن میں پھر بھی نہیں سمجھا سکوں گا کہ امیر کون تھا۔ صرف یہی کہوں گا کہ امیر اعلیٰ خیال اور مسلسل عمل کے آمیزش کا کامل مرکب تھا، جو انسان کی صورت اختیار کرگیا۔
کبھی کبھبار سوچتا ہوں کچھ ایسے تنظیمی ساتھی ہوتے ہیں، ان کی ایمانداری، احساس ذمہ داری و مخلصی اور قربانی کے بدولت تنظیم ان کا، ان کے فکر کا قرضدار رہتا ہے، کچھ تنظیم پر بوجھ بنکر تنظیم کا حق ادا نہ کرتے ہوئے تنظیم کا قرضدار رہتے ہیں۔ امیر وہ انسان تھا کہ تنظیم کو اپنا قرضدار کرگیا، موجودہ قومی آزادی کی جنگ میں اگر آپ امیر کے کردار و محنت اور تمام قربانیوں کے ساتھ انصاف کرکے فیصلہ کریں، تو امیر واقعی ایک مثالی و منفرد کردار کے مالک آپکو نظر آئیں گے۔ آج بھی بلوچ قوم میں خصوصاً بلوچ نوجوانوں میں امیر ایک آئیڈیل بن چکا ہے۔ خود غرضی، نمود و نمائش، سستی شہرت، سستی و کاہلی، غرور و ضد، لالچ و خوف سے بالاتر درویش و ملنگ اور عاجز امیر ایک زندہ شخصیت کا مالک تھا۔
آج بڑے بڑے دعویدار، دھواں دار باتوں، دلیلوں، بھڑک بازیوں، دکھاوے سے اپنی بونے جیسی قد کو دیو ہیکل ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آئیں گہ لیکن جب بھی اس کانٹوں سے سجے راستے پر امتحان و آزمائش سر پر آتی ہے تو سب کے دعوے ریت کے گھروندے کی طرح بکھرے نظر آتی ہیں۔ ان طوفانوں کو شروع دن سے سینے پر سہنے والا امیر ہی تھا۔
امیر نے جیسی زندگی گذاری، ایک عام موت ایسی اساطیری زندگی کی توہین ہوتی۔ اسکے زندگی کے خوبصورت قصے کا عامیانہ انجام بھلا کیونکر ہوتا، تبھی موت بھی رومانویت سے بھرپور نصیب ہوئی۔ وہ تاریخ کے ان گنے چنے نایاب لوگوں کے صف میں آکھڑا ہوا، جو وقت سے لڑ کر زندگی اپنی مرضی کا گذارتے ہیں اور پھر موت بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے مرضی کا چنتے ہیں۔ سات اپریل 2014 کو دشمن سے گھنٹوں لڑنے کے بعد جب اسکی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں، تو وہ مسکراتے ہوئے اپنی جیبیں ٹٹولتا ہے اور ایک گولی دائیں جیب سے نکالتا ہے، یہ گولی سالوں سے اسکے جیب میں رکھا ہوتا ہے۔ جب کوئی پوچھتا ہے کہ کس لیئے یوں جیب میں رکھا ہے تو وہ مسکرا کر بولتا میرے لیئے ہے، لیکن کوئی سمجھتا نہیں۔ وہ گولی بندوق کے نلی میں اتار کر، امیر آسمان کی طرف دیکھتا ہے، بندوق کی نل ٹھوڑی کے نیچے مستعد کردیتا ہے، انگلی بندوق کے لبلبی پر رکھتا ہے، ایک مسکراہٹ، انگلی پر دباؤ، زور دار آواز، گرتی لاش اور ایک فلسفے کا آغاز۔ آخری گولی کا فلسفہ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔