بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے لئے بلوچستان محض ایک تجربہ گاہ ہے جہاں انسانی جان کی قیمت پر مختلف تجربے کیئے جارہے ہیں۔ جوہری ہتھیار، جوہری ہتھیاروں کے فضلے ٹھکانے لگانے، بلیسٹک میزائل، حیاتاتی ہتھیاروں سمیت اس مقبوضہ سرزمین پر گذشتہ سالوں میں کئی تجربے کیئے جاچکے ہیں۔ بہترسالوں سے غلامی، استحصال، وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور غربت ہماری مقدر بن چکی ہے۔ ایک طرف بلوچوں کو غربت اور انتہائی پست درجہ زندگی مار رہی ہے، دوسری طرف ریاستی افواج، خفیہ ایجنسیاں اور ریاستی افواج کے متوازی ڈیتھ سکواڈز بلوچ کی لہو، جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیل رہے ہیں۔ اب کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ چاغی میں ایٹمی ہتھیاروں کے تابکاری اثرات سے بلوچستان میں کینسر کی شرح خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ چاغی جوہری دھماکوں کے زخم ابھی تک تازہ ہیں کہ کورونا وائرس کو بلوچستان میں پھیلانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ تفتان، بسیمہ، واشک، پنجگور، مند، کیچ جیسے سرحدی علاقوں سے آج مغربی بلوچستان، ایران کے دیگر علاقوں اور افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین بغیر اسکریننگ کے بلوچستان میں داخل ہورہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایران سے آئے زائرین کو اپنے علاقوں میں منتقل کرنے کے بجائے دانستہ طور پر بلوچستان کے اس علاقے میں رکھا گیا جہاں سہولیات ناپید ہیں اور اسے پاکستانی وزیراعظم نے اپنے قومی ٹی وی پر ”ویرانہ“ کا نام دے ڈالا۔ یہ اور بات ہے کہ تفتان بلوچستان کا امیر ترین علاقہ ہے جس کے وسائل پر پاکستان کے زرمبادلہ کا بڑا انحصار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تفتان میں وائرس کے متاثرین قرنطینہ کی دو ہفتے گزارنے کے بعد پنجاب چلے گئے تو وہاں انہیں اسی طرح قرنطینہ سنٹر میں رکھنا تھا۔ اس سنٹر کیلئے بہاولپور کا انتخاب کیا گیا تو وہاں کے شہریوں نے احتجاج کا راستہ اپنا کر اسے چیلنج کیا۔ حتیٰ کہ وہ کورٹ بھی چلے گئے تاکہ قرنطینہ مرکز اس کے شہر میں نہ ہو۔ اب کئی متاثرین کیلئے ایک قرنطینہ سنٹر بلوچستان کے شہر قلات میں قائم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کے خلاف قلات کے مکین سراپا احتجاج ہیں مگر ان کی شنوائی کیلئے کوئی موجود نہیں۔ اگر قلات بہاولپور کی جگہ پر ہوتی تو یقیناً ایسی صورت حال ہرگز نہ ہوتی۔ یہ پاکستان کی جانب سے قبضہ اور ہماری غلامی کی بدترین نشانیاں ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کئی مہینوں سے بی ایم سی ایکٹ کے خلاف احتجاج پر ہیں تاکہ بلوچستان میں صحت کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے قانون سازی ہو، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ آج بلوچستان میں نہ مریض کورونا کی وبا سے محفوظ ہیں اور نہ ڈاکٹرز، کیونکہ دونوں سہولیات سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں پہننے کیلئے ماسک دستیاب نہیں، ونٹی لیٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں مگر کورونا وائرس کے قرنطینہ سنٹر کیلئے بلوچستان کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان سے گلے شکوے نہیں کررہے ہیں۔ پاکستان ہمارے ساتھ وہی کچھ کر رہا ہے جو انسانی اقدار سے محروم، تاریخ و تہذیب سے نا آشنا دشمن کرتا ہے یا کرسکتا ہے۔ حقائق سامنے لانے کا مقصد عالمی اداروں کی توجہ حاصل کرنا اور ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو ایک غیر معمولی صورت حال کی حیثیت سے پاکستان کی درندگی اور مظالم کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کا موثر طریقہ سوشل میڈیا ہے جسے استعمال کرکے ہم واقعتاً اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ہم اپیل کرتے ہیں کہ بلوچ سوشل میڈیا صارفین جنگی بنیادوں پر سوشل میڈیا میں آگاہی مہم شروع کریں کہ پاکستان واضح خطوط پر کورونا وائرس کو بلوچ قوم کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس کو بطور حیاتیاتی ہتھیار بلوچ قوم کے خلاف استعمال سے عالمی دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے 4 اپریل کو ایک آن لائن کمپیئن چلایا جائے گا۔ تمام سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ وہ بلوچ قوم کی مدد کے لئے آگے بڑھیں اور ہماری کمپیئن میں بھرپورشرکت کریں۔ کمپین کے لئے #Covid19PakBioWeaponAgainstBaloch کا ہیش ٹیگ استعمال کیا جائے گا۔