کلچر، کلچر ڈے اور ریاستی ہائی جیک کلچر
تحریر: سالم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کلچر ایک اصطلاح ہے، بنیادی طور پر اصطلاح مخصوص معنی میں نہیں ہوتا وقت اور حالات کے مطابق معنی بدلتے رہتے ہیں لیکن بنیادی طور لفظ ثقافت جس سے مراد کسی قوم یا طبقے کی تہذیب ہے۔ زانت کاروں نے اس کی یہ تعریف مقرر کی ہے، ’’ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے‘‘۔ اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک نہیں ہو سکی۔
حسن رضا چنگیزی لکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی مجھ سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کلچر کیا ہے تو میرا سیدھا سادا جواب ہوتا ہے کہ “زندگی گذارنے کا طورطریقہ”۔
مثلاَ بچّے کی پیدائش پر ہم کس طرح خوشیاں مناتے ہیں، کسی کے مرنے پر ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے، شادی بیاہ پر ہم کون سی رسمیں نبھاتے ہیں، گھر آئے مہمان کا ہم کیسے استقبال کرتے ہیں، دسترخوان بچھانے سے پہلے ہم کن باتوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں سے کیسے بات کرتے ہیں، بچّوں سے کس طرح پیش آتے ہیں، عورتوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں، لباس کیسا پہنتے ہیں، راہ چلتے کسی جاننے والے سے ملاقات ہو تو کیا رویہ اختیار کرتے ہیں، مریض کی تیمارداری کیسے کرتے ہیں اور کسی مسافر کے آنے اور جانے پر ہمارا کیا رد عمل ہوتا ہے؟ الغرض زندگی گزارنے کا ہمارا جو طور طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے، وہی ہمارا کلچر کہلاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قوم اور معاشرے میں ثقافت کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، چاہے وہ غلام ہو یا آزاد ۔ ہر قوم کی یہی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اپنے فرد اپنی ثقافت کو اپنائے بلکہ بڑے فخریہ انداز میں اپنی ثقافت کو اجاگر بھی کریں کہ جی ہم ایک تاریخ ، تہذیب ، اقدار اور بہترین ثقافت رکھنے والی قوم ہیں ۔
بلوچ قوم کو بحیثیت واریئر اور غلام کے لے کر غالبا2010 کو بی ایس او آزاد نے باقی اقوام کی طرح کلچر ڈے منانے کا فیصلہ کرکے اعلان کیا کہ ہر سال دو مارچ کلچر کا دن منایا جائے گا ۔ اور ایک دو سال بڑے جوش و خروش کے ساتھ ثقافتی دن منایا گیا اسی انداز میں جس طرح آج منایا جاتا ہے، سفید قمیص سے لےکر بڑے شلوار سے ہوکر دستار کو سر پر رکھ دھول کے تاپ پر ناچا جا رہا تھا، سُر اور سنگیت کی دنیا تھی ۔ تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جائے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں گو کہ غلامی اپنی جگہ لیکن ہیں تو زندہ ، تہذیب اور بہترین ثقافت رکھنے والی قوم ۔
پھر نہ جانے ریاست اور ریاستی اداروں کو کیا خوف لاحق ہوگئی کہ انہوں نے اس کلچر پر حملہ کیا اور دو نوجوان شہید ہوگئے ۔پھر اسی دن اور آج کا یہ ثقافتی دن متنازعہ ہوتا آ رہا ہے ۔
کلچر ڈے کو لے کر بلوچ قوم تین حصوں میں بٹ چکی ہے ایک وہ لوگ جو اس موجودہ کلچر ڈے کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔جن میں اکثریت آزادی پسندوں کی ہے یا ان لوگوں کی ہے جو ریاستی ظلم اور تشدد کا شکار ہیں ۔ دوسرے دو گروہ مخالفت کرنے کی بجائے اسے مناتے ہیں جن میں سے اپنے آپ کو بھی قوم بلوچ قوم پرست کہتے ہیں جو کہ بی ایس او اور بی این پی کی شکل میں ہے اور لکھاری ، شاعر، ادیب کی شکل میں بھی ۔تیسرا گروہ ریاست اور اس کے ادارے ہیں جو بڑے جوش و خروش سے کلچر ڈے مناتے ہیں بلکہ بقول انور ساجدی کے اسپونسر بھی کر رہے ہیں ۔
ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے کلچر ڈے منانا یا اس کو اسپونسر کرنا سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ بی ایس او اور بی این پی مینگل کی جانب سے کلچر ڈے منا کر وہ وہی دلیل دے رہے ہیں شاید جس وقت بی ایس او آزاد نے فیصلہ لے کر جو دلائل دئیے تھے ۔کہ ہم زندہ قوم ہیں ہمیں اپنی تہذیب اور ثقافت ہے لہذا ہم کلچر ڈے منا کر پوری دنیا کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے آگاہی دیں گے ۔
جو طبقہ جن میں زیادہ تر آزادی پسند لوگ شامل ہیں وہ اس کلچر ڈے کی مخالفت کر رہے ہیں ان کے پاس بھی اپنی اپنی دلائل ہیں ۔ لیکن سب سے پہلے یہ سوچنے والی بات ہے کہ ایک طلبہ تنظیم کو کس نے یہ اختیار دیا تھا یا کیا یہ ان کے دائرہ کار میں تھا کہ وہ پورے قوم کا ذمہ اپنے کندھوں پر لے کر قومی کلچر ڈے منانے کا اعلان کریں ؟ یا کیا کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ادارہ اپنے کیے ہوئی فیصلے کی مخالفت کرے اگر اس وقت فیصلہ صحیح تھا پھر آج مخالفت کیوں ؟ اگر اس یہ فیصلہ غلط تھا تو آج برملا کہہ دیں کہ ہماری اس وقت کا فیصلہ غلط تھا ہمیں اس طرح کے فیصلے نہیں لینا چاہیے جس قوم تقسیم ، انتشار اور کنفیوژن کا ہو ۔ یہ صرف ایک سوال ہے اس پر بحث پھر صحیح ۔
جن باتوں پر کلچر ڈے کی مخالفت کیا جا رہا ہیں اب ان کا تذکرہ کریں گے ۔بہت سے لوگ کہتے ہیں جی کلچر ایک دن کا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ پوری تاریخ پر محیط ہے اسے کیسے صرف ایک دن منایا جاتا ہے پھر اللہ اللہ خیر صلاح ۔ یہ بات درست ہے کہ کلچر یا دستار کی تاریخ ایک دن کیلئے نہیں ہوتا بلکہ صدیوں پر محیط ہے لیکن اس ایک دن کے منانے پر مخالفت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں سال میں ایک دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس طرح اکیس فروری مادری زبانوں کا دن کو لے لیں، تیرہ نومبر شہداء کا دن ، دس دسمبر انسانی حقوق کا دن ، آٹھ جون مسنگ پرسنز کا دن ، آٹھ مارچ عورتوں کا دن ، اور بھی کہیں ایسے دن ہیں اگر اس ایک دن کی بنیاد پر کلچر ڈے کی مخالفت کیا جارہا ہے تو یہ ایک دن والا فیصلہ لینا بھی غلط ہے یا پھر باقی دنوں کو بھی نہ منایا جائے ۔ کیونکہ شہداء کو یاد کرنا ہے روزانہ کرو پھر ایک مخصوص دن ہی کیوں ؟
یا اس بنیاد پر کلچر ڈے کی مخالفت کرنا کہ جی ہم غلام قوم ہے ہمارے ہاں روزانہ لاشیں گرتی ہیں گھر جلائے جاتے ہیں ہر گھر ماتم کدہ بن چکا ہے اور میں جاکر ان گلیوں میں دھول دمامہ کروں ، بھنگڑے ڈالوں جہاں ہر گلی میں ایک لاپتہ شخص اور ایک لاش ہمیں تحفے میں ملی ہے ۔ تو اس بات کو لے کر سوچا جائے کیا جب کلچر ڈے کا فیصلہ لیا جا رہا تھا کیا اس وقت ہم آزاد تھے ؟ کیا اس وقت لاشیں نہیں گر رہے تھے اور لوگ لاپتہ نہیں ہو رہے تھے ؟
مخالفت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب یہ ریاستی اسپنسرڈ کلچر بن چکا ہے اب یہ ریاست کے پالیسیوں میں شامل ہوچکا ہے لہذا ریاست کلچر ڈے منا کر دھول ، اور بھنگڑے ڈال کر دنیا کو یہ پیغام دے گی کہ “بلوچستان ایک پُرامن صوبہ ہے وہاں کے لوگ پاکستان کے ساتھ خوش ہے جب بھی ان کا جی چاہیے خوشیاں مناتے ہیں بلاخوف و خطر کلچر ڈے منا رہے ہیں بلکہ ریاست یعنی پاکستان ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے “۔
یعنی ریاست نے اس کو ہائی جیک کیا ہے ۔ اس لیے اب اُسے منانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ریاستی پالیسیوں میں شامل ہے ۔ اور ریاست اور اس کے ادارے ہمارے کلچر ، تہذیب اور اقدار کو مسخ کر رہیں ہیں لیکن ریاست کو لے کر اپنی ہی کلچر کو منانے سے انکار کرنا (حتی کہ جذباتی پن میں اس حد تک گزر گئے کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا میں برملا دستار کی مذاق بھی اڑا رہے تھے ) اگر ریاست والی بات ہے پھر اس وقت فیصلے کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اب ہم عروج پر ہیں جب زوال آئے گا تو ریاست ہمارےکلچر کو ہائی جیک بھی کر سکتی ہے ریاست ہماری پالیسیاں اپنا بھی سکتی ہے پھر ہمارا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟ ہم کس طریقے سے اپنے کلچر ، تہذیب اور اقدار کو بچائیں گے ؟ اسی بات کو لے کر اگر دیکھا جائے پہلے طلبہ تنظیمیں سیمینار ، فیسٹیول اور بک اسٹال لگا رہے تھے اور آج ریاست اور ریاستی ادارے بڑے شوق سے فیسٹیول ، سیمینار اور بک اسٹال لگاتے ہیں بلکہ بعض جگہ طلبہ تنظیموں کے ساتھ مل کر ریاست یہ کام کر رہی ہے تو کل کے دن ہم لوگ فیسٹیول ، سیمینارز اور بک اسٹال نہ لگائے بلکہ ان کی مخالفت کریں کیونکہ آج انہی پالیسیوں کو ریاست اپنا رہی ہے اور تنظیموں کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے اس طرح کے پروگرام کر رہی ہے ۔
پھر اگر ہم کہہ دیں کہ بلوچستان میں سیاسی پروگرام ، فیسٹیول اور سیمینار کرنے میں پابندی ہے ریاستی ادارے کہیں گے بلکہ نہیں کیونکہ وہاں تو ہر اضلاع میں فیسٹیول منعقد کیا گیا ہے تقاریر اور ڈسکشنز بھی ہوئیں ہیں بلکہ بعض جگہوں پر طلبہ تنظیموں کے ساتھ مل کر ہم نے اس طرح کی پروگرامز کی ہے ۔ یا ہم کہہ دیں کہ بلوچستان میں کتاب پر پابندی ہے کتاب پڑھنا گناہ اور جرم کے مترادف ہے پھر وہی بات ہوگی کہ ہر ضلع میں بک اسٹال لگ رہے ہیں باقائدہ ریاست اور ریاستی اداروں کے تعاون سے بک اسٹال لگ رہے ہیں ۔ لہذا کلچر ڈے ، بک اسٹالز ، سیمینارز اور فیسٹیولز کو لے کر بہت سی ایسی پالیسیاں ہیں جن کو آج ریاست اپنا کر رہی ہے اور ان پر عمل بھی کر رہی ہے بلکہ بہت سے جگہ طلبہ اور تنظیموں کے ساتھ مل اس طرح کے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے، اس ہر جدوجہد آزادی کرنے والے شخص سے لے کر اداروں تک کو سوچنا چاہیے کہ ریاست کے پالیسیوں کو کس ناکام کرنا ہے اور ان چیزوں کے مخالفت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ان کا متبادل ہمیں ڈھونڈنا ہوگا۔
لہٰذا بحیثیت ایک فرد کے میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے، جن کے بارے میں میں سوچ رہا تھا انہی کو لے کر میں نے ان باتوں کو قلم بند کیا ہاں ہوسکتا ہے جس طرح میں سوچ رہا ہوں یا جس طرح چیزوں کو محسوس کر رہا ہوں اس طرح نہیں ہیں اور میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔