ڈائری سے کچھ یاداشتیں اور ساجد سے شناسائی – گہرام اسلم بلوچ

381

ڈائری سے کچھ یاداشتیں اور ساجد سے شناسائی

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ان دنوں کورونا وائرس کے پیشِ نظر شہر بھر میں کہیں مکمل اور کہیں جزوی لاک ڈاون کے دوران بین الاقوامی احتیاطی تدابیر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے (سیلف قرنطینہ) کے دوران آج سے تیرہ، چودہ سال پرانی ڈائری پڑھنے کا مجھے موقع ملا۔ اس ڈائری میں اُس وقت کی کچھ یاداشتیں تھیں، جب میں نے نیا نیا اسکول سے فارغ ہوکر مزید تعلیم کے لیے ”گورنمنٹ عطا شاد کالج” کا رخ کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلوچستان میں ”جنرل مشرف” نے ”نواب اکبر خان بگٹی” کو شہید کیا تھا۔ اس واقعے کو محض کچھ ہی مہینے بیتے تھے، ردعمل کے طور پر بلوچستان بھر میں نفرت کی نہ ختم ہونے والا شورش برپا تھی اور دوسری جانب علیحدگی پسند تحریک بھی اپنا زور پکڑ چکی تھی۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کا نظریاتی و فکری دور تھا۔ ہر نوجوان ”بلوچ و بلوچستان کے سیاسی عمل” کے ساتھ منسلک تھا۔ اُس زمانے میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی کسی بھی ایک سکول آف تھاٹ سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکے۔

بلوچستان میں نواب صاحب کی شہادت کے بعد مجموعی صورحال کے مطابق ہم نے بھی شعوری طور پر بلوچستان کی فکری سیاست کے ساتھ جدوجہد کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ چونکہ بلوچستان میں بلوچ نیشنلسٹ سیاست کی مادر تنظیم ”بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بی ایس او تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ بلوچستان کے باشعور نوجونوں نے بی ایس او کے تمام دھڑوں کو بلوچستان کے عظیم تر مفادات کی خاطر ”بی ایس او” میں انضمام کیا تھا۔ مگر بد بختی سے ایک بار پھر ”بی ایس او” مختلف دھڑوں میں تقسیم در تقسیم رہا۔”بی ایس او” اس وقت تنظیمی و فکری طور پر تین منظم اور متحد گروپوں میں تقسیم تھی۔ جن میں اُس وقت ایک گروپ کی رہنمائی بشیر زیب، موجودہ بی ایس او آزاد (اُس وقت بی ایس او کا کوئی بھی دھڑا کالعدم نہیں تھا۔ ایک دھڑے کی سربراہی جاوید بلوچ موجودہ بی ایس او پجار اور تیسرے کی (محی الدین بلوچ موجودہ بی ایس او مینگل) گروپ کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتا ہے۔

چونکہ ماضی میں اس انضمام سے قبل بی ایس او کا اُس دور میں ایک منظم well disciplined تنظیم بی ایس او متحدہ ہواکرتی تھی۔ بنیادی طور پر اسکول کے زمانے میں میری تنظیمی وابستگی بی ایس او متحدہ سے تھی۔ پھر بعد میں جب انضمام ہوا اور پھر تقسیم ہوئی تو میں اس وقت بی ایس او پجار کے ساتھ وابستہ رہا اور آج تک ہوں۔ اُس وقت جاوید بلوچ ہمارے گروپ کے مرکزی آرگنائیزر تھے ۔ ہمارا قومی کونسل سیشن گوادر میں منعقد ہوا۔ واحد رحیم بلوچ چیئرمین اور علیم بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ ہم جیسے سیاسی کارکنوں کی اُس وقت کے ممتاز، سُلجھے ہوئے سنجیدہ بلوچ لکھاری اور صحافی ساجد حسین سے شناسائی ہوئی۔ ابھی چند دن پہلے ہی ان کی سوئیڈن میں لاپتہ ہونے کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے تو ہم جیسے سیاسی کارکن اور صحافت کے طالبعلم کو گہرا رنج اور دکھ ہے۔ کاش ہم افسوس کے علاوہ ساجد صاحب جیسے انسان دوست صحافی اور کمیٹڈ سیاسی کارکن کے لیے عملی طور پر کچھ کر سکتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔