سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے علاقے لیاری میں جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ریلی نکالی گئی۔
لیاری میں چیل چوک پر ہونے والے مظاہرے کی قیادت تین مہینے تک جبری طور گمشدگی کے شکار ہونے والے حانی گل بلوچ کررہی تھی جبکہ ان کے ہمراہ انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ اور دیگر افراد شریک تھے۔
حانی گل بلوچ نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نسیم بلوچ اور راشد حسین سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ لوگوں کو ماورائے قانون لاپتہ کرنا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانا انسانیت اور عالمی و ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے جس کے خلاف لوگوں کو ہمارے ساتھ آواز اٹھانا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی ادارے اس معاملے میں بے بس نظر آرہے ہیں لیکن پھر بھی ہم ملکی قوانین کے تحت اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں علاوہ ازیں بین الاقوامی اداروں کو اس معاملے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینی چاہیے کہ یہاں جبری گمشدگیاں ایک انسانی المیے کو جنم دے چکی ہے۔
خیال رہے حانی گل بلوچ خود جبری گمشدگی کے شکار ہوچکے ہیں۔ گذشتہ سال وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ میں انہوں نے انکشاف کیا کہ مجھے میرے منگیتر محمد نسیم کے ہمراہ پاکستانی خفیہ اداروں نے 14 مئی 2019 کی رات کراچی سے اُٹھاکر لاپتہ کیا اور تین مہینوں تک نامعلوم مقام پر مجھے شدید ذہنی و جسمانی تشدد کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ محمد نسیم تاحال لاپتہ ہے جن کی رہائی کے لیے میں احتجاج کررہی ہوں۔
احتجاج میں شریک تیرا سالہ ماہ زیب بلوچ نے ٹی بی پی نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا میں اپنے چاچا راشد حسین بلوچ کے لیے گذشتہ ایک سال کے زائد عرصے سے احتجاج کررہی ہوں لیکن مجھے انصاف نہیں مل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ راشد حسین بلوچ کو اگر کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار متحدہ عرب امارات ہوگی کیونکہ متحدہ عرب امارات ہی نے راشد حسین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کے بعد غیرقانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا جہاں وہ تاحال لاپتہ ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے جاری ہے جس کے کیخلاف کوئٹہ اور کراچی سمیت بیرون ممالک میں بھی مختلف اوقات میں بلوچ سیاسی و سماجی جماعتوں کی جانب سے احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔