غیرفطری قلمرو
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
کائنات میں ہر شے قوانین فطرت کا تابع ہے، اور تعمیر و تخریب انہی قوانینِ فطرت سے مشروط ہیں۔ جہاں یہ قوانین فطرت سبک اندامی انسانی زندگی کے پہلو اور اسکی ہر تخلیق میں جلوہ گر ہوتی اور اس پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہیں انکا اطلاق انسانی ریاست و سیاست پر بھی ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی شے فطرت کے خلاف چلتا ہے تو وہ زوال پذیری و انحطاط کا شکار ہوکر ابتری کے پستیوں کو چھوتے ہوئے ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ریاستوں پر اس قانونِ فطرت کا عملی مظہر دیکھنا ہو تو پاکستان ایک جیتا جاگتا مثال ہے۔ مذہب کی آڑ میں انگریز اور دوسرے قوتوں کے مفادات کی تحفظ کی خاطر 1947 میں بننے والی پنجابی ریاست پاکستان کو اگر آپ کسی بھی لحاظ سے، کسی بھی حالت میں اور کسی بھی وقت دیکھیں اور غور کریں تو آپ کو مضحکہ خیزی کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔
اس ریاستِ انگریز داد کا نام نہاد الیکشن یا سلیکشن ہو، پارلیمنٹ ہو، تعلیمی و طبی نظام ہو، قدرتی آفات ہوں، کرونا جیسا وباء ہو، میڈیا ہو، اس کے سیاستدان ہوں، فوج ہو، بیوروکریسی ہو، عدلیہ ہو، انتظامیہ ہو، مذہبی پیشواء، مولوی حتیٰ کہ دانشور و تجزیہ نگار اور صحافی ہوں۔ سب کے سوچ، رویئے، حرکات اور اعمال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فطری و حقیقی قومی ریاستوں اور اقوام کے سوچ و رویئے اور انکے سوچ و رویوں میں فرق ہر لحاظ سے روز روشن کی طرح سب کے سامنے عیاں ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کے خمیر و بیج میں ازل سے جھوٹ، کرپشن، چاپلوسی، منافقت، دغابازی، فراڈ، جگاڑ، بھیک وغیرہ رچ بس چکی ہے۔ مطلب کوئی بھی بری خصلت اگر دنیا میں وجود رکھتا ہے، وہ پاکستان اور پاکستانی قوم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
کیونکہ یہ ریاست ہی غیر فطری اور عارضی ہے تو اسلیئے اسکے ہر شخص اور ہر ادارے کے لاشعور میں عارضی پن کا سوچ بیٹھ چکا ہے۔ جب نفسیات پر عارضی پن کی کیفیت ہو تو وہ شخص ہمیشہ اپنی ذات کو بنانے کا سوچتا ہے۔ اسکی مثال ایسے ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے ذاتی گھر میں رہ رہا ہو تو وہ اسکے بنیادوں کا خیال رکھتا ہے، تزئین و آرائش کرتا ہے، ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو فوری حل کرتا ہے، جب کرائے کے گھر میں ہو تو گھر کے اکھڑے رنگ اور گرتی دیواروں کا اسے کوئی پاس نہیں رہتا۔ اسے بس اپنا وقت گذار کر کچھ وقت کے بعد دوسرے گھر میں جانا ہوتا ہے۔ اسی لیئے پاکستان کے طاقتور ترین جنرل ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں اور سیاستدان یا تو وزیر ہوتے ہیں، جب نہیں ہوتے تو پھر لندن و دبئی میں رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ سب اس غیر فطری پن اور عارضیت سے آگاہ ہیں۔ اسی لیئے پاکستان میں کبھی کچھ بھی صحیح نہیں ہوسکتا، اگر پاکستان میں آپ کرپشن کی سزا پھانسی بھی رکھ دیں کچھ بھی نہیں بدلے گا کیونکہ عارضیت کی لاشعوری نفسیات شخصی نہیں بلکہ اس ریاست کے وجود سے وابسطہ ہے۔
ہمیں شرمندگی اور آخری حد تک افسوس اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم بلوچ، سندھی و پشتوں اقوام 70 سالوں سے اس غلیظ قوم اور اس غلیظ ریاست کے زیر دست ہوکر ان کے غلام ہیں۔ جب ہماری آنے والی نسلیں پیدا ہونگیں، تو سوچینگے کہ ہمارے آباء و اجداد کس کے غلام تھے، ضرور ان کو بے انتہاء شرمندگی ہوگی کہ ایک دور میں ہماری قوم ان کے غلام رہے تھے۔
البتہ ہمیں آج شرمندگی و افسوس کے ساتھ خوشی بھی ہر جگہ محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم ہم اس قوم کے غلام ہی صحیح مگر ہم نے غلامی کو قبول تو نہیں کیا ہے، لیکن حیرت ان بلوچ، سندھیوں اور پشتونوں پر ہوتا ہے، خاص طور پر ان اقوام کے نوجوانوں پر جو اس اکیسیویں صدی میں اپنے غلامی کی لعنت سے بے خبر و بیگانہ ہوکر خواب غفلت میں مدہوش ہیں اور بدقسمتی یا نالائقی کہیں، پھر ایسے ملک و قوم کو اپنا ملک و قوم بھی تصور کرتے ہیں، جس کا ایک بھی حقیقت جھوٹ و فراڈ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اس دور میں کم از کم بلوچ، پشتون، سندھی قوم کو خاص طور پر قوم کے نوجوانوں کو ہر صورت و حالت میں کچھ بنیادی چیزوں اور حقائق پر تحقیق اور غور و فکر کرنا چاہیئے۔ جو سادہ سوال ہوتے ہیں، ان کا جواب و حل بھی سادہ ہوتا ہے یعنی پاکستان کیسے اسلامی ملک ہے؟ دو قومی نظریہ کیا ہے؟ کیا ہندو و مسلمان دو قوم ہیں؟ یا دو الگ مذاہب ہیں؟ کیا مذہب و قوم میں واضح فرق نہیں؟ کیا مذہب و قومیت کے علمی تعریف و تشریح میں زمین و آسمان کا واضح فرق نہیں ہے؟ پھر کیسے مسلمان و ہندو دو قوم بن گئے اور پھر دو قومی نظریہ بن گیا اور پھر پاکستان اسلامی ملک بن گیا اور پھر جبر کی انتہاء یہ ہوگیا بلکہ کلمہ طیبیہ کے ساتھ گستاخی یہ ہوا کہ پاکستان کا مطلب لاالااللہ ہوگیا۔ کیا آپ کو کوئی کہہ دے آپ اول کلمہ پڑھو آپ جواب میں کہہ دو گے پاکستان؟ یہ جواب خود ٹھیک اور جائز ہوگا یا کلمہ اور قران کے ساتھ گستاخی ہوگا؟
پاکستان ہندوستان سے اسلام کے نام پر الگ ہوا تو پھر پاکستان سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں پاکستان کے مہاجروں سے بہتر زندگی کیوں گذار رہے ہیں؟ دو قومی نظریہ کا نام نہاد شوشہ اس وقت ناکام ہوکر خلیج بنگال میں ڈوب نہیں گیا جب اس نظریئے کو پیش کرنے والے بنگالی خود ہی پاکستان سے جان چھڑا گئے؟
دوسری بات کس مذہب، قانون، مقدس کتاب و قرآن و حدیث اور روایت میں درج ہے کہ مذہب کے نام پر آپ اسی مذہب کے لوگوں کی سرزمین پر قبضہ کرکے ان کے وسائل کو بےدردی سے لوٹ لو؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر پاکستان کیوں اور کس بنیاد پر بلوچوں کو مسلمان یا اسلام کے نام پر ان کی سرزمین پر قابض ہوتا ہے؟ پاکستان کو یہ حق کس مقدس کتاب، سورت، حدیث و دلیل وغیرہ نے دیا ہے؟
ایسی بات ہے تو آج اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار سعودی عرب نے بیسیویں صدی کے سب سے بڑے اسلامی قوت سلطنت عثمانیہ کو برطانیہ کے ساتھ مل کر کیوں توڑ دیا؟ انکی دلیل یہ تھی کہ ہم مسلمان ضرور ہیں لیکن ہم اہل سعود الگ شناخت رکھتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ درجنوں مسلم قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ خلافت کے ختم ہوجانے اور قومی ریاستوں کی تخلیق کے بعد اب پاکستان کونسی خلافت بن گئی ہے اور خلیفہ کون ہے جو تمام اسلامی ممالک کو ایک خلافت میں ڈالنے کی دلیل دے رہا ہے اور اس نام نہاد دلیل کی ہوا صرف کمزور ہمسائیوں سے آگے کی نکل جاتی ہے؟
پھر سعودی عرب تمام اسلامی ممالک پر قبضے کرے اور قومیت کی کوئی اگر حیثیت نہیں تو پنجابی اسلام کے نام پر فارسیوں کے ایران پر قبضہ کرے اسلام کے نام پر، اور ایران بھی اسلام کے نام پر ترکوں پر قبضہ کرے۔ اگر یہ سب کے سب ناجائز اور غیر قانونی ہیں، پھر بلوچوں کے لیئے کیوں اور کیسے قانونی ہیں؟ کس بنیاد پر کس دلیل پر اور کس حقیقت کے تحت پھر بلوچ اور پنجابی ایک ساتھ اور بھائی بھائی ہیں؟ اگر بنیاد و دلیل مذہب و اسلام ہے تو پھر فارسی و پنجابی اور پنجابی و عرب کیوں بھائی نہیں بن سکتے ہیں؟ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں اور ایک ملک نہیں بنا سکتے ہیں؟ کیونکہ یہ سارے کے سارے الگ ملک و الگ اقوام ہیں۔ ان کا الگ الگ شناخت، زبان، ثقافت و کلچر اور جغرافیہ ہے۔ پھر بلوچ قوم کا بھی پاکستانی و پنجابی قوم سے مکمل الگ شناخت، زبان، ثقافت و کلچر اور جغرافیہ ہے۔ پھر صرف مذہب کے نام پر پوری دنیا میں پنجابی اور بلوچ کیسے بھائی بن گئے؟
ایک تو ہر بلوچ کو ان بنیادی حقائق اور سچائیوں پر غور و فکر کرکے اپنے قومی بقاء و قومی آزادی کے حصول کی خاطر لڑنا ہوگا، وگرنہ تاریخ میں بدترین غلامی کے ساتھ ساتھ بے حسی و بیگانگی کا سیاہ دھبہ بھی اپنے پیشانی پر لگانا ہوگا۔
قومی آزادی کے جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے سماج سے، اپنے سیاست سے، اپنے طرز زندگی سے ابھی سے ہی پاکستانی سماج کے اثرات و خصلات کا صفایا کرنا ہوگا، نہیں تو یہ سارے منفی اثرات و خصلات ہمارے قومی جدوجہد میں دستیاب ہوتے ہوئے قومی ریاست اور قومی تشکیل میں مل جائینگی، پھر بلوچ ریاست و قوم کی شکل بھی، پاکستانی طرز کا ہی ہوگا۔ جو آج پوری دنیا کے لیے مضحکہ خیز اور باعث خطرہ ہوگا۔
یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے قومی آزادی کی جدوجہد و جنگ میں پاکستانی طرز سیاست کے خصلات و عادات کی کوئی گنجائش نہ ہو، نہیں تو ان عادات و خصلات کے موجودگی میں ہم کبھی بھی جدوجہد کے اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے، جس مقام پر دنیا کے تحاریک پہنچ کر آج تاریخ میں زندہ مثال بن چکے ہیں۔ ہمارے لیڈر، ہمارے کمانڈر، ہمارے دانشور، ہمارے ادیب و شاعر، ہمارے لکھاری، ہمارے صحافی، ہمارے سفارتکار وغیرہ پھر بالکل اس عالمی معیار کے مطابق نہیں پہنچ سکتے ہیں، جب تک پاکستانی طرز رویوں، عادات و خصلت میں ڈوبے ہوں۔
باریک بینی سے ان منفی عادات و خصلات کو سمجھنا اور پرکھنا پھر اپنے قوم اور خاص طور پر جہدکاروں کو آگاہ کرکے ان کا ذہنی و فکری تربیت کرنا انتہائی اہم ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔