عورت مارچ
ٹی بی پی اداریہ
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ کرنا، دنیا بھر میں اب کوئی انوکھا یا انہونا کام نہیں لیکن پاکستان میں یہ ایک بالکل نیا طور ہے، کیونکہ یہاں پہلی “عورت مارچ” صرف دو سال پہلے ہی سال 2018 میں نکالی گئی تھی۔
مختلف مواقع پر، اس مارچ کے منتظمین یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ خواتین کے مسائل کو لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، تاہم اس سے پہلے مذکورہ دن پر محض روایتی سرگرمیاں ہی منعقد ہوتی تھیں۔ جیسے سیمینار منعقد کرنا یا پریس کانفرنسز کرنا، جن کی پہنچ بہت کم لوگوں تک ہوتی اور اثر نا ہونے کے برابر رہتی۔ اس بات کو اگر ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ خواتین آبادی کا نصف ہیں تو یہ ایک نا انصافی تھی۔
اب جتنی توجہ یہ ” عورت مارچ ” حاصل کرچکی ہے، اس سے یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ یہ مارچ اپنا بنیادی مقصد حاصل کرچکی ہے، جو لوگوں کی توجہ بڑی تعداد میں اس مدعے پر مبذول کرانا تھا۔ اب بس انہیں اپنے مسائل مقتدرہ حلقوں کے سامنے صحیح طریقے سے رکھنا ہے، لیکن یہیں سے مارچ کے منتظمین اور شرکاء مختلف تنازعات کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ عورت کے سوال پر، سماج کے مختلف طبقہ ہائے فکر، حتیٰ کے ترقی پسند حلقوں کے بیچ میں بھی اختلافات ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔
دائیں بازو کی جماعتیں تو خاص طور پر دو ٹوک الفاظ میں عورت مارچ کے خیال کو اسکے ابتداء سے لیکر اب تک مسترد کرتے ہوئے آئے ہیں، خاص طور پر اس سال مذہبی جماعتیں جن میں ” جامعہ حفصہ” کے طلباء بھی شامل ہیں، مارچ کے شرکاء کو دھمکی تک دے چکے ہیں۔
تاہم، عورت مارچ کے شرکاء ان مصائب کو رکاوٹ کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں، بقول انکے، انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ انکی مخالفت میں ایسے قدامت پسند عناصر سامنے آئینگے کیونکہ انکے مفادات رجعتی پدر شاہی سماج میں پیوستہ ہیں۔
دوسری جانب، بلوچستان میں عمومی طور پر یہ مشاھدہ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ خواتین اپنے مسائل کی نمائیندگی و زبان مذکورہ عورت مارچ کے ایجنڈے میں نہیں دیکھتیں۔
بلوچ خواتین سیاسی کارکنان کی یہ شکایت ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کی رہائی کی جاری تحریک، درحقیقیت ایک عورت تحریک ہی ہے، اور خواتین کا ہی مسئلہ ہے کیونکہ اس تحریک کو چلانے والوں کی بھاری اکثریت خواتین کی ہے، لیکن بلوچ خواتین کے ان مخصوص مسئلوں کو باقی خواتین مسئلہ تسلیم نہیں کرتیں۔ بلوچ خواتین کے تحفظات میں یہ نقطہ بھی شامل ہے کہ خواتین کا مختلف طریقوں سے استحصال ہوتا ہے اور انہیں انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جن میں سے ایک براہ راست ریاست کے جبر کا شکار ہونا بھی ہے۔
بلوچستان میں خواتین نے اس دن کے مناسبت سے گذشتہ سال ایک مارچ کا انعقاد کیا تھا، اور اس سال بھی بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ایک مارچ نکالی جائیگی، اور بہت سے خواتین نے اعلان کیا ہے کہ وہ خواتین سے اظہار یکجہتی کیلئے لاپتہ افراد کے رہائی کیلئے لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں بیٹھیں گی۔
تاہم کراچی میں بلوچ خواتین کا ایک وفد “بلوچ راجی” کے بینر تلے “عورت مارچ” میں شرکت کرے گی، جنکا دعویٰ ہے کہ وہ اس مارچ میں بلوچ خواتین کے مسائل کو اجاگر کریں گے۔
عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ پاکستانی میڈیا اور دانشورانہ مباحث میں ایک منفی پروپگینڈے کے تحت بلوچ سماج کو انتہائی قدامت پسند اور رجعت پسند دکھایا جاتا ہے، لیکن یہ مشاھدہ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں “عورت مارچ” کو نوجوانوں اور مختلف سیاسی جماعتوں سمیت سماج کے تمام پرتوں کی جانب سے حمایت و ہمدردی حاصل ہے اور باقی شہروں کے برعکس یہاں کوئی قابلِ ذکر رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی ہے۔