بلوچستان میں عالمی یوم خواتین کے حوالے سے عورت الائنس کے تحت عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین سمیت مرد بھی شریک ہوئیں۔
عورت الائنس کے تحت عورت مارچ کا آغاز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بلوچ خواتین کی گمشدگی اور لاپتہ افراد کی لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی سے کیا گیا۔ مارچ کے شرکاء نے پریس کلب سے ہوکر ٹیکسی اسٹینڈ سے واپس پریس کلب آکر مظاہرہ کیا جہاں انہوں نے اپنے مطالبات پیش کیئے۔
مقررین میں حمیدہ نور، رافیہ ملک، حمیدہ ہزارہ، قمرالنسا، جویریہ ملک، خالد مندوخیل شامل تھیں جبکہ ایچ آر سی پی، ہندو کمیونٹی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کوئٹہ خواتین کے لئے پدرسری اور سرمایہ داری کے استحصال سے آزاد سماج کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ مارچ خواتین کے معاشی اور سماجی حقوق سمیت تعلیم، صحت، انصاف اور اپنے وجود پر اپنا حق چاہتی ہے۔
عورت الائنس نے اس موقعے پر اپ 15 نکات پر مشتمل اپنے مطالبات پیش کئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان میں خواتین کے لیے بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے صحت، تعلیم اور انصاف کے حوالے سے ٹھوس اقدامات لیے جائیں۔ سرکاری و غیر سرکاری کام کی جگہوں پر خواتین کے تحفظ کے لیے ہراسمنٹ 2010 کے بل پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ بلوچستان میں گھریلو تشدد کے خلاف موثر قانون سازی کی جائے اور شادی کے لیے کم سے کم 18 سال کی عمر سمیت جبری مذہب تبدیلی کو روکنے کے لیے قانون بنایا جائے۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے جائیں، کاری قرار دی جانے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
الائنش نے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ تمام شہریوں کے لیے روزگار، گھر، صحت اور تعلیم فراہم کی جائے بلخصوص معذور افراد کے لیے اضافی سہولیات فراہم کی جائیں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی بے جا نگرانی، سکیورٹی فورسز کا انخلاء اور جنسی ہراسانی کے روک تھام کے لیے طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور حالیہ بلوچستان یونیورسٹی جنسی سکینڈل کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگی کو فی الفور روکا جائے اور تمام گمشدہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ تمام لاپتہ افراد کے بیویوں اور بچوں کی معاشی و سماجی حالات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ان خواتین اور بچوں کو ریاستی سطح پر مطمئن کیا جائے۔ خواجہ سراؤں کیخلاف تشدد کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں تمام انسانی حقوق مثلاً گھر، روزگار، تعلیم، صحت مہیا کیا جائے۔
عورت الائنس نے مطالبہ کیا کہ قدرتی وسائل، جنگلات اور حیاتیات کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پاتے ہوئے بلوچستان کے تمام افراد کو صاف پانی و غذا تک رسائی ممکن بنائی جاۓ۔ کام کی جگہوں پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کے تعلیم اور ہنر کے مطابق مساوی مواقع فراہم کیئے جائیں۔ بےروزگار خواتین کو کم از کم پندرہ ہزار روپے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ زچگی سے تین ماہ پہلے اور تین ماہ بعد تنخواہ سمیت رخصت دی جائے۔ تمام کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں یونین سازی کا حق دیا جائے۔ اور دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کیلئے آنے والے بجٹ میں رقم مختص کی جائے۔
عورت الائنس کے شرکا نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ جاکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقع پر دیگر خواتین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔