دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
قسط 2 – تربت سے گوادر کا سفر (آخری حصہ)
ہم دشت کو چیرتے ہوئے جنوب مغرب کی طرف جاتے ہیں اور ساتھ گرد و غبار کے زبردست بگولے پیدا کرتے جاتے ہیں۔ اگر تین چار گاڑیاں دشت میں جارہی ہوں تو ان کے پیدا کردہ گرد و غبار سے ایسا لگے گا جیسے جنات کی بارات جارہی ہو۔ گرد و غبار سے سوار خود بھی جن بن جاتا ہے۔ چنانچہ پک اپ کے بند دروازوں کے اندر بھی ہمارے کوٹ، ہمارے سوٹ کیس، ہمارے چہرے، ہمارے بال اکیسویں صدی کے بلوچ تحفے یعنی مٹی سے ایسے لیپ دیے گئے تھے کہ اگر ہمیں ہمارے اپنے بچے دیکھ لیتے تو وہ بھی چیخ مار کر بھاگ جاتے۔
جنوب مغرب کی طرف جاتے جاتے سڑک پھر، مغرب کو ہوجاتی ہے۔ قبلہ کی سمت، ڈوبتے سورج کی طرف۔ اور ہمیں جنوب میں بائیں جانب سمندر نظر آیا۔ دلکش ہے بلوچستان جس کا سورج نکلتا ہے حضرت سخی سرور کے پرنُور مزار سے، اور ڈوبتا ہے کرامت بھرے بحیرے بلوچ میں۔ ہم سمندر کے متوازی چلتے رہے، چلتے ہی رہے اور پھر پہلی بندر گاہ، پہلا بلوچستانی ساحلی شہر، ”سھر بندر“ نظر آیا۔ پورا شہر سمندر کے کنارے کنارے آباد ہے۔ شہر کے ساتھ سمندر کے اندر ایک سکائی سکریپر پہاڑ ہے جس کی ساخت اتنی خوب صورت ہے کہ پریوں کا مسکن لگتا ہے۔ ایسا منظر، کہ ہمیں ہالی وڈ کے سارے فلم سازوں کی جغرافیہ سے لاعلمی پہ سخت تعجب ہوا۔ بلوچ ساحل فطری حسن اور چھوٹی انسانی آبادیوں کا امتزاج ہے، جن کی بہت ہی ابتدائی اور فرسودہ معیشت ہے۔ پتہ نہیں ماڈرن عہد اس کا کیا حشر کردے۔
ساحلوں سے پرے پہاڑیاں اور پہاڑ، ساحلی پٹی کو باقی سر زمین سے ممتاز کیے دیتے ہیں۔ کثیر الجہت ہے ساحل کی خوب صورتی اور مختلف النوع ہے یہاں کی جغرافیائی ساخت۔ تقریباً یہیں سے پکی سڑک شروع ہوئی۔ یہ واحد 35 میل سڑک ہے پورے مکران ڈویژن میں۔ وہ بھی مملکت خداداد نے نہیں،USAID نے بنوائی۔ اور پھر سڑک کے ساتھ ساتھ لیویز، کوسٹ گارڈ وغیرہ کی چیک پوسٹوں سے ہوتے ہوئے کوہِ مہدی کے سلسلے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ (اس کوہِ مہدی کا تربت والے کوہِ مراد سے کوئی تعلق نہیں)۔
اور جونہی مہدی نے اجازت دی ہم گوادر کی پھیلائی بانہو ں میں تھے۔ مٹی سے اَٹے، جمپوں سے انجر پنجر شدہ اور جوڑ جوڑ میں درد۔ جو حکمران اپنے عوام کو اچھی سڑکیں نہیں دیتا، وہی سب سے زیادہ اسلام اسلام کے نعرے بلند کرتا ہے!!۔
گوادر کے مضافات میں دس پندرہ کلو میٹر، یک لخت جنوب میں چلتے رہنے کے بعد شہر شروع ہوا۔ شہر کیا تھا، لمبی لمبی دیواروں کے غیر آباد احاطوں کا مجموعہ تھا۔ یہ قبضہ کے احاطے تھے۔ چیک پوسٹوں کے قبضہ کردہ احاطے، دینی مدرسوں کے قبضہ کردہ احاطے، مسجدوں کے احاطے، سیاسی لیڈروں اور زور آوروں کی طرف سے قبضہ کی ہوئی چار دیواریوں کے احاطے…….. گوادر، قبضہ شدہ شہر ہے۔
شہر کی وسعتوں میں ماہی گیروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ امیروں، حاکموں، غنڈوں، اور لینڈ مافیانے مل کر پورا علاقہ قبضہ کرلیا ہے او ر بڑے بڑے قطعات پہ چار دیواریاں بنوا کر اپنی ملکیت کی مہر لگا رکھی ہے۔ قبضہ گروں کے احاطوں کی دیواروں پر فرقہ وارانہ نعرے، دھمکیوں، زندہ بادوں مردہ بادوں کے نعرے کندہ تھے۔ انہی نعرہ بردار چار دیواروں کے درمیان چلتے چلتے ہماری پک اپ، کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے اُس ریسٹ ہاﺅس میں پہنچی، جو ڈی سی نے ہمارے لیے بک کرائی تھی۔
اُس زمانے میں گوادر میں کل آٹھ ریسٹ ہاﺅس تھے۔ پرانا گورنر ہاﺅس بھی ہے۔ جسے وی آئی پی ریسٹ ہاﺅس کے بطور استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈی سی کا بک کردہ ریسٹ ہاﺅس زبردست تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کسی بھی ڈاگ بنگلے (ریسٹ ہاﺅس) سے بہتر۔ دو منزلہ طویل عمارت، وسیع کشادہ کمرے، نو آبادیاتی افسرو کے شایان شان پردے، بیش بہا فرنیچر، خدام و غلام، غلام گردشیں، پھول و چمنستان اور عین پاﺅں کے نیچے سمندر…….. یہ عمارت بلوچ لوک کہانیوں کے شہزادوں کے محل کے تصور سے بھی بہت زیادہ شان دار عمارت تھی۔ مگر چاند پہ بھی تو ایک داغ ہوتا ہے، سو اس ریسٹ ہاوئس میں بھی ایک داغ تھا: یہاں باورچی خانہ نہ تھا۔ اور ہمیں اطلاع دی گئی کہ کھانا کھانے آپ کو ”قریبی“ بخشی ہوٹل جانا پڑے گا۔
حالاںکہ یہاں سے بخشی ہوٹل اچھا خاصا دور تھا۔ اتنا کہ پیدل جاتے تو سید زادے (امیر الدین) کی رانوں کے پٹھے چڑھ جاتے اور جسم کے درد کو دور کرانے (ٹانگیں دبانے) ہم کوئٹہ سے ان کے جواں عمر ملازم کو بھلا کیسے منگوا پاتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔