دو دانشور ’’کورونا وائرس‘‘ سے آگاہ تھے – صہیب مرغوب

338

دو دانشور ’’کورونا وائرس‘‘ سے آگاہ تھے

تحریر: صہیب مرغوب

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کا سب سے بڑا موضوع بحث کورونا کے سوا کوئی نہیں۔ جہاں جائیں، اسی پر بات ہورہی ہوگی۔ افواہوں وار قیاس آرائیوں کا ایک بازار گرم ہے جو ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کچھ نے اسے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دے دیا ہے۔ کچھ کے نزدیک دنیا ختم ہونے والی ہے، بہت سے لوگو سمجھتے ہیں کہ یہ گمراہی کی دلدل میں دھنسے ہوئے انسانوں کے لیے ایک سبق ہے، خود کو طاقت ور سمجھنے والا انسان اللہ کے حقیر سے وائرس سے ڈر کر گھروں میں چھپ گیا ہے۔ کائنات میں انسان کی یہ ہے اوقات۔

اس سارے منظرنامے میں دو کتابیں ہر جگہ زیر بحث ہیں، یہ دونوں کتب یورپی مصنفین کی تحریر کردہ ہیں۔ ایک کتاب کا ٹائٹل ہے؛ ‘‘End of Days’’ یعنی دنیا کا انجام۔ اس کی مصنفہ ہیں سلویا براون ۔ انہوں نے 2020 میں ایک خطرناک وائرس کے پھیلنے کی پیشنگوئی کی تھی جس سے دنیا بھر میں ہل چل مچ جائے گی اور اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا، ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ اپنی موت کی پیش گوئی بھی کر بیٹھی تھیں لیکن یہ غلط ثابت ہوئی۔ دوسری اہم کتاب کے مصنف ڈین کونز (Dean Koontz) ہیں۔ کتاب کا ٹائٹل ہے ‘‘The Eyes of Darkness’’۔

سلویا براون کئی عشروں سے عالمی تبدیلیوں کے بارے میں پیش گوئیاں کرتی رہی ہیں، وہ نجومی ہیں نہ پامسٹ، دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اچھی نعمتوں سے نوازا ہے، ان کی چھٹی حس تیز ہے یا وہ حالات کا بہتر ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ خود کو سائیکک ایکسپرٹ قرار دیتے ہیں۔ عالم سے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ آنے والے حالات کی ہلکی سی بو سونگھ لیتے ہیں، سلیا بھی انہی میں سے ایک ہیں، انہوں نے 2008 میں لکھا کہ 2020 کے قریب دنیا میں ایک ایسا وائرس پھیلے گا جس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا، یہ وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، انہوں نے لکھا کہ 2020 میں کہیں نمونیہ کی قسم کا ایک وائرس پوری دنیا میں پھیل جائے گا، کوئی خطہ اس سے نہیں بچ پائے گا۔ یہ پھیپھڑوں اور ان کی ارد گرد کی برنکیل ٹیوبس  کو متاثر کرے گا، کسی دوا سے قابو نہ آنے والا یہ وائرس جتنی تیزی سے حملہ آور ہوگا اتنی ہی تیزی سے ناپید بھی ہوجائے گا، دس برس بعد یہی وائرس دوبارہ حملہ آور ہوگا، اور پھر اس کے بعد یہ کبھی حملہ نہیں کرے گا۔

وہ وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں خاموش تھیں،ان کی کتاب معروف ماڈل کم کردشیان نے بھی شیئر کی جس کے بعد دنیا بھر میں زیر بحث آگئی، سوشل میڈیا کے مطابق وائرس کا دنیا بھر میں پھیلنا، پھیپھڑوں اور سانس کی نالیوں کو متاثر کرنا اور کسی دوائی سے قابو نہ آنے کی باتیں حقیقت کی قریب تر ہیں، تاہم کئی لوگوں نے سلویا سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے شدید نمونیا جیسی بیماری کی پیش گوئی کی تھی لیکن یہ شدید نہیں ہے کیونکہ اس میں شرح اموات محض 3.5 فیصد ہے، پھر یہ کہ سلویا نے لکھا کہ 2020 میں کہیں یعنی 2020 کی بات نہیں کی تھی اور اس میں بھی انہوں قریب کا لفظ استعمال کرکے دو تین سال کا مارجن حاصل کرلیا تھا۔

دوسری کتاب اس سے بھی پہلے لکھی گئی تھی، یہ 1981 میں لکھا گیا ڈین کونز کا ناول ’’دی آئیز آف ڈارکنس‘‘ ہے، ڈین کونز کا شمار شہرت یافتہ عالمی مصنفین میں ہوتا ہے، لوگ ان کے سنسنی خیز ناولوں کا انتظار کرتے ہیں، سنسنی خیزی اور مہم جوئی ان پر ختم ہے، وہ اپنے ناولوں میں سنسنی خیزی کے علاوہ سائنس فکشن، بائیلو جیکل وار، آسمانی مخلوق اور طنز و مزاح کا تڑکہ بھی لگاتے ہیں، ان کے ناولوں پر ڈرامہ سیریلیز اور فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔

مذکورہ ناول ٹی وی پروڈیوسر لی رچ (Lee Rich) نے خرید کر ڈرامہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اچھے ڈائیلاگ نہ لکھے جانے کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔

پہلے ایڈیشن میں انہوں نے وائرس کا نام گورکی400 رکھا مگر بعد ازاں 1989 میں چھپنے والے ایڈیشن میں نام ووہان 400 دیا ہے۔

ناول نگار کے خیال میں یہ وائرس یعنی ووہان400 انسان ہی کا بنایا ہوا ایک ہتھیار ہے، جیسا کہ اس وقت بھی امریکہ اور چین میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ یہ انسان کا ہی بنایا ہوا ہتھیار ہے جو معیشت کو نشانہ بنانے کے لیے چین میں چھوڑا گیا ہے، ایک چینی افسر کے اس سے ملتے جلتے ریمارکس پر امریکی حکومت نے سخت برا مناتے ہوئے چینی سفیر سے بھی احتجاج کیا ہے۔

ڈین مذہبی حوالے سے کٹر کیتھولک ہیں اور اسی کو ذریعہ نجات گردانتے ہیں،اسی لیے وہ امریکہ میں غریبوں کی مدد کرنے والے ایک ادارے سے بھی منسلک رہے، شائد اسی لیے ان کے ناول کا موضوع بھی چین ہی تھا، ہالی وُڈ انڈسٹری اب چین کو ایک برے ملک کے طور پر دکھانے میں پیش پیش ہے۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد ہالی وُڈ اب چین کے پیچھے پڑچکا ہے،یہ ملک امریکی ناول نگاروں کے بھی نشانے پر ہے۔ 1968 میں لکھے گئے اپنے پہلے ناول میں بھی انہوں نے جہاں سائنس فکشن کا تڑکہ لگایا، وہیں کیتھولک تعلیمات کا پرچار کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔

ناول میں ووہان کا نام بطور خاص لکھنا محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی راز چھپا ہوا ہے؟ انہوں نے نام کیوں تبدیل کیا، گورکی اور ووہان میں بہت فرق ہے! سوال کا جواب وقت ہی دے گا۔