جنرل اسلم بلوچ
تحریر: اسماعیل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مہربان باپ، بھائی، ایک استاد سب سے بڑھ کر ایک دوست، استاد اسلم ایک روشن خیال اور اصولوں کے بابت سخت مزاج انسان تھے، لیکن سب سے بڑھ کر ایک رحم دل شخصیت کے مالک تھے۔ دل کے بڑے انسان تھے۔ اکثر غریبوں کی مدد کرتے، کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے بلکہ ہمیں بھی غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتے تھے۔ اکثر کسی راہ چلتے، کسی غریب یا مسکین کو دیکھتے تو اس کو کھانا کھلاتے اور اس کی مدد کرتے۔ آپ ہمشہ ایک لیڈر کا کردار ادا کرتے۔ اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ استاد اپنی مثال آپ ایک بڑے شخصیت تھے۔
آپکے آبا و اجداء زمیندار رہے تھے، وقت و حالات نے آپ سے سے زمین وغیرہ سب کچھ چھین لیا تھا لیکن استاد کی زندگی گذارنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ بڑے بھائی کے تعلیمات نے استاد کو اور بھی مضبوط اور قوم پرست شخصیت میں بدل دیا تھا۔ بڑے بھائی کے ناگمان موت سے استاد تھوڑا کمزور تو ہوئے تھے۔ لیکن ہمت نہیں چھوڑا۔ استاد نے اپنے بھائی کے چار بیٹوں کی پرورش خود کی، جس میں استاد نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
استاد کہتے تھے کبھی اپنا حق لینے سے نہیں ڈرنا اور سر جھکا کے مت چلنا، کبھی چھوٹے چھوٹے چیزوں، باتوں پر دوستوں سے مت لڑنا جھگڑنا، نہ ناراض ہونا۔ استاد کی لیڈر شپ اور استادی بہت بے مثال تھا، وہ غلطیوں پر سخت سزا دیتا تھا اور اچھے کامون پر انعام بھی۔
استاد سب کو یکساں نظر سے دیکھتے تھے، کبھی کسی کو کسی سے چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ پورے خاندان اور سارے دوستوں کو برابری کے ساتھ دیکھتے تھے۔
ہمشہ استاد ہمیں ایک نصیحت کرتے تھے، اور وہ باتیں آج تک دل کو چیرتے ہوئے اچھی طرح یاد ہیں کہ جھوٹ مت بولو، کبھی کسی کا حق مت کھانا، کسی کی دل آزاری مت کرنا، آسان رستے مت تلاشنا، بہت سارے باتیں ہے جو لکھنا ہے۔ پر دل و دماغ لکھنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر استاد ایک عملی اور خوش مزاج شخصیت کے مالک انسان تھے۔ استاد سوشلسٹ اور سیکیولر خیالات کے مالک تھے، جو استاد کی سب سے بڑی خوبی تھی، استاد کو کتابوں سے بھی بڑی دل چسپی تھی۔
دوستوں میں بھی آپکا کردارمثالی تھا، دوستوں کو جو مسئلہ ہوتا، وہ استاد کے پاس آتے، مشورہ کرتے تھے، کیونکہ وہ جنتے تھے کے استاد اچھے فیصلے کرتاتھا۔
جب استاد قومی تحریک میں شامل ہوئے، تو وہاں بھی نرم دل، مہربان دوست، مدد کرنے والا سب کو سمجھانے والا استاد بنا۔ دستووں پر ناراضگی یا زبردستی نہیں کرتے تھے بلکہ برابری اور بھائی چارے سے ساتھ لے کر چلتے تھے۔ اور قابل دوستوں کو ذمہ داری دیتے تھے، باقی دوستوں کو ترغیب دیتے تھے کہ کوئی کبھی کام سے چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، عمل ہی سب سے بڑا ہوتا ہے۔
استاد عملی دوستوں کو بہت پسند کرتے تھے، کام تو سب دوست کرتے تھے، جو دوست کسی کام کا کہتا اور عمل کرتا استاد اسے آپنے دل میں جگہ دیتے، استاد سب دوستوں کا خیال رکھتے، اپنے سگے رشتوں سے زیادہ بلکہ استاد رشتوں سے ذیادہ دوستی کو اہمیت دیتے تھے۔ کبھی کسی دوست کو اس کے بس سے زیادہ کام نہیں دیتے تھےبلکہ اس دوست سے خود پوچھتے تھے کہ تم کتنا کام کر سکتے ہو۔
کبھی کسی قابل دوست کو اپنے مرضی سے کوئی کام نہیں دیتے تھے۔ بلکہ صلح مشورے سے کام تقسیم کرتے تھے، اور جہاں جاتے دوستوں کا بوجھ اٹھاتے، دوست استاد کو کام کرنے نہیں دیتے لیکن استاد دوستوں سے کہتا کہ مجھے بھی ایک سپاہی سمجھیں، میں بھی آزادی کے لئے نکلا ہوں، یہاں سب برابر ہیں، گھاٹ یا کسی اور کام میں دوست کم ہوتے تو استاد دوستوں پر بوجھ نہیں ڈالتا بلکہ خود گھاٹ دیتا اور کام کرتا تھا، دوستوں سے کہتا کہ مجھے بھی گھاٹ دو میں بھی کام کرونگا، بلکہ کبھی کبھی استاد لنگری بھی کرتا۔
استاد بہت رحم دل انسان تھے، اگر کوئی دوست کسی قیدی کو مارتا، تو استاد غصہ ہوتے کہتے کے ان کو اگر تم مارو گے، ظلم کرو گے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہےگا۔ استاد ہمشہ قیدیوں کا خیال رکھتے تھے اور دوستوں کو بھی قیدیوں کا خیال کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔ استاد کی ساری باتیں یاد آتی ہیں، دل کہتا ہے کے استاد کی ساری باتیں لفظوں میں قید کر لوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔