بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ بی ایس او آزاد ایک پر امن سیاسی تنظیم کی حیثیت سے بلوچ نوجوانوں اور بلوچ طالب علموں کے لئے ایک سیاسی نرسری کا کردار ادا کررہی ہے۔ بی ایس او آزاد کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو سائنسی بنیادوں پر شعوری و سیاسی تربیت فراہم کرنا ہے تاکہ مستقبل میں بلوچ قومی تحریک اور بلوچ سماج کے لئے ایک بہترین کردار ادا کرسکیں۔
لیکن بلوچ سماج میں تنظیم کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے کے لئے ریاست اور اس کے ماتحت اداروں نے ایک پر امن طلبہ تنظیم کے لیڈران اور ممبران پہ کریک ڈاؤن کرتے ہوئے انہیں ماورائے عدالت گرفتار کیا اور دوران حراست اذیت ناک تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں شہید کیا۔ لیکن بی ایس او آزاد کے نوجوانوں کا یہ قافلہ اپنے منزل کی جانب رواں دواں رہا اس لئے نوجوانوں کی اس شعوری جدوجہد کو روکنے کے لئے تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ بی ایس او آزاد پہ پابندی دراصل بلوچ قومی سیاست اور بلوچ سماج کو جمود کا شکار بنانے کی سازشوں کا حصہ ہے تاکہ نوجوان سیاست سے کنارہ کش ہو کر مستقبل میں غیر سیاسی عناصر کے آلہ کار بن جائیں اور انہیں بلوچ سماج کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم کو سماج سے دور رکھنے کے لئے ظالمانہ اور جابرانہ اقدامات کیئے گئے۔ آج بھی درجنوں لیڈرز پابند سلاسل ہے لیکن تنظیم نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اپنے قومی بقاء کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔
مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بی ایس او آزاد پر پابندی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ عالمی قوانین کسی بھی ریاست کو سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی کی اجازت نہیں دیتے اس طرح کے اقدام عالمی قوانین کو اپنے پیروں تلے روندنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تنظیم پندرہ مارچ دو ہزار بیس کو بی ایس او آزاد پر پابندی کے خلاف سوشل میڈیا میں ایک کمپئین #RemoveBanOnBSOAzad کے ہیش ٹیگ کیساتھ چلائے گی جس میں بلوچ طالب علموں سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ تنظیم پہ پابندی کے خلاف موثر آواز اٹھائیں۔