بی این ایم ڈائسپورہ ماہانہ تربیتی اجلاس، شہداء کو خراج عقیدت پیش کی گئی

192

نواب خیر بخش مری بلوچ قومی تحریک میں ایک انتہائی اہم مقام و حیثیت رکھتے ہیں۔ شہدائے فروری کو سلام و عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جدوجہد کو منزل تک پہنچانے کیلئے شبینہ روز جدوجہد کی ضرورت ہے۔ زبان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنی مادری و قومی زبانوں کی ترقی و ترویج کیلئے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بی این ایم ڈائسپورہ

بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کی جانب سے ماہانہ آن لائن اجلاس آرگنائزر ڈائسپورہ کمیٹی ڈاکٹر نسیم بلوچ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اس میں شہدائے فروری کی قربانی و جدوجہد پر اظہار خیال، بلوچ قومی رہنماء و بلوچ تحریک کے سرخیل مرحوم نواب خیر بخش مری کی زندگی پر روشنی ڈالنے سمیت زبانوں کی اہمیت اور تنظیمی و تحریکی مسائل پر گفتگو کی گئی۔ اجلاس میں مختلف زونوں کے کارکنوں و عہدیداران نے شرکت کی۔

اجلاس سے بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سترسالوں سے بلوچ نسل کشی جاری ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے روزانہ کی بنیاد پرلوگوں کو شہید کیا جارہا ہے۔ اب اس کی شدت میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔ فروری کے مہینے میں بھی ایک کثیر تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔ جن میں دو بلوچ خواتین شہید یاسمین اور شہید ازگل بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماہ فروری میں بی این ایم کے ساتھی شہید محبوب واڈیلہ، بی آر پی کے رہنماء شہید اُستاد عبدالرحمان عارف، بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رہنماء کامریڈ قیوم، شہید جمیل یعقوب سمیت سینکڑوں بلوچ فرزندان نے بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قومی شناخت کی بقا کیلئے دشمن ریاست کے سامنے جھکنے کے بجائے زندان میں بھی مرگ شہادت کو ترجیح دی۔ آج بلوچ قومی آزادی کے کاروان میں شامل تمام رہنماؤں و کارکنان کو ان شہداء کی قربانیوں، ان کی قومی تحریک سے کمٹمنٹ اور پھر اپنی کارکردگی پر ضرور سوچنا ہوگا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مزید کہا کہ آج یعنی انتیس فروری کے دن بلوچ قومی تحریک کے سرخیل و بزرگ بلوچ قوم دوست رہنماء مرحوم نواب خیر بخش مری کی بیانوے ویں سالگرہ کی مناسبت سے ہم انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔ بی این ایم یہ سمجھتا ہے نواب خیر بخش مری کی زندگی بلوچ قومی مزاحمت، بلوچ قومی سوچ اور بلوچ قومی آزادی میں اہم باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی زندگی، تعلیمات اور جدوجہد سے بلوچ قوم اور آنے والی تمام نسلیں علم و شعور حاصل کرتی رہیں گی۔

اجلاس سے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مادری زبانوں کی اہمیت و ضرورت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم کو اپنی زبان دوسروں کی زبانوں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ بحیثیت بی این ایم ہم اس ضرورت کو سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ بلوچوں کی مادری زبانوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن اس عمل میں اس کاروان میں ہمیں بلوچ ادیب، شعراء اور دانشوروں کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔ ڈاکٹر نسیم نے مزید کہا کہ ہم ایک دوسرے پر بغیر کسی ثبوت و شواہد کے تنقید کرکے دوسرے پہ الزام لگا سکتے ہیں کہ آپ زبان کی ترقی و ترویج کیلئے کام نہیں کررہے یا میں ہی زبان کی حفاظت کا ضامن ہوں تو شاید یہ بلوچی، براہوئی اور دیگر زبانوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

ڈاکٹر نسیم نے کہا کہ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ ہمارے ادبی ساتھیوں سے جب بھی بلوچی کے حوالے سے کام یا ان سے مدد کی درخواست کی گئی تو ہمیں کسی بھی طرح کا کوئی خاطر خواہ جواب یا مدد میسر نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود بھی ہم صرف تنقید برائے تنقید کیلئے یہ نعرہ لگائیں کہ سیاسی پارٹی زبانوں کی ترقی کیلئے کام نہیں کررہے تو یقیناً ہم زیادتی کررہے ہونگے۔ انہوں نے کہا آج بھی وہ ساتھی جن کی مہارت زبان، ادب و لسانیات ہے انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بلوچوں کی زبانوں کی بہتری کیلئے نہ صرف کام کریں بلکہ وہ دوسرے کارکنان و رہنماوں کی تربیت کریں۔

اجلاس سے دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت پیش کی اور عزم کا اعادہ کیا کہ ان کے مشن کو منزل تک پہنچانا ہی ان کی قربانیوں سے انصاف ہوگی۔ اجلاس سے بی این ایم امریکہ زون کے رکن نبی بخش بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج کے بدلتے حالات میں بلوچستان کے حوالے سے عالمی دنیا کے سامنے ایک واضح پالیسی و لانگ ٹرم پلاننگ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا براہ راست فائدہ قومی تحریک اور بلوچ قوم کو ہوگا۔