بلوچ عورتیں سیاسی و سماجی عزم و استقلال کے پیکر ہیں – ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

277

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے وائس چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچ عورتوں کی سیاسی سماجی اور معاشرتی کردار کوسراہتے ہوئے کہا کہ اِس گھٹن زدہ فضا میں جہاں ایک جانب مثبت سرگرمیوں پر قدغن عائد ہے تو دوسری جانب بلوچ عورتوں کی سیاسی اور سماجی حوالے سےعزم و استقلال کا پیکر بننا قابل ستائش ہے بلوچستان کے بدترین حالات خواتین کی زندگیوں پر کئی گنا زیادہ ہوکر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں عورتوں کے لیے عالمی دن کے منانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ عالم دنیا میں عورت آج بھی اپنے انسانی مقام سے محروم ہے.آج اگر ایشیا کی ستم زدہ خاتون آزادی کی طلب گار ہے تو یورپ کی آزاد خاتون بھی آزادی کی طلب گار ہے کیونکہ عورت کو میسر یہ آزادی بھی اسے انسانیت کا مقام نہیں دے پارہی ہے عورت کو انسان قرار دینے کے علاوہ اسے کوئی بھی اعلیٰ مقام دیا جائے وہ اسے آزاد نہیں کر پائے گی او عورت کی آزادی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ اپنے مہذب مقام کو پانے سے قاصر رہے گا۔

آج اگر بلوچستان میں خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے کی خواتین ایک بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جسکی وجہ پدر شاہی نظام نہیں بلکہ خطے کی موجودہ بد ترین حالات ہیں جو کہ خواتین پر کئی گنا زیادہ ہوکر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ صوبے میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب سالانہ کئی اموات واقع ہوتے ہیں جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جس کو اگر عالمی اداروں کے ایک رپورٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا بھر میں زچگی کے دوران موت کے شکار ہونے والے خواتین میں بلوچستان پہلے نمبر پہ ہے یعنی صحت کی سہولیات کی فقدان کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بھی عورت ہورہی ہیں۔

بلوچستان میں تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر ہے اسی نظام تعلیم میں خواتین کی خواندگی کی شرح پچیس فیصد سے بھی کم ہے تو اسکی وجہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے.بلوچستان میں پدرشاہی نظام عورتوں کی تعلیمی حصول میں رکاوٹ نہیں بلکہ میلوں دور چند ایک اسکولوں کا قیام اور اعلیٰ تعلیم محض بڑے شہروں تک محدود ہونا خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بالخصوص خواتین کے ساتھ پیش آنے واقعات خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے میں کیٹالسٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں. بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی حراسگی کا واقعہ,سردار بہادر خان یونیورسٹی میں دھماکہ یا کہ بولان میڈیکل کالج کے خواتین کو رات گئے ہاسٹل سے باہر نکال دیا جانا اور مستونگ کی لڑکیوں کی اسکولوں میں زہریلی گیس کے زریعے حملہ کرنا یہ تمام واقعات خواتین کو تعلیم سے مزید دور کرنے کےلیے ہونے والی سازشوں ہی کی کڑی ہیں.

اپنے بیان کے آخر میں صبیحہ بلوچ نے کہا ہے کہ آج اکیسوی صدی کی خاتون آزاد ہوکر بھی سینکڑوں معاشرتی اور سماجی مشکلات کا شکار ہے لیکن بلوچستان کی خواتین بدترین حالات سے دو چار ہونے کی باوجود اپنے وجود کے بقاء کے لیے برسرجہد ہے.خواتین کے اس عالمی دن کے موقع پر میں بلوچستان سمیت کے دُنیا اُن تمام جہد کار خواتین کو سلام پیش کرتی ہوں جو سماجی, سیاسی اور معاشرتی گھٹنوں کے باوجود معاشروں کی تشکیل میں ایک ہم کردار ادا کر رہی ہیں.