بلوچستان شخصیات کے آئینے میں
مصنف: پروفیسر عزیز بگٹی | پبلشر: فکش ہاؤس لاہور
تحریر: شبیر بلوچ
مرکزی انفارمیشن سیکرٹری بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی
قوموں کی ترقی خوشحالی میں قیادت کا نمایاں کردار ہوتا ہے جو اپنے سیاسی علم و زانت کو منظم عوامی قوت بخشنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو قومیں اپنی صحیح قیادت کو چننے میں کامیاب ہوتے ہیں وہی ترقی کے معراج تک پہنچتے ہیں۔
ادارہ فکشن ہاؤس کے زیر دست شائع ہونے والی کتاب “بلوچستان شخصیات کے آئینے میں” پروفیسر عزیز محمد بگٹی کی ایک کاوش ہے جو بلوچ تاریخ پر شخصیات کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتی ہے کچھ کتابیں نایاب اور انمول ہوتی ہیں جن کا مطالعہ کرنا، ان پر تنقید و تحقیق کرنا بحیثیت سیاسی طالبعلم ہمارا فریضہ ہے، ہمیں قومی تاریخ و ادب کو قصہ کہانیوں سے بالاتر ہوکر تنقیدی بنیادوں پر پرکھنا ہوگا تاکہ نئے خیالات کو ابھارا جا سکے۔
دنیا میں ہر شئے اپنے ارتقائی مراحل سے گذر کر اپنے انجام کو پہنچتا ہے لیکن اس سفر میں بہت سارے سوالات حل طلب رہتے ہیں پروفیسر عزیز بگٹی کی اس کتاب میں کچھ ایسے سوالات حل طلب ہیں جن کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے جن میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں
1۔ چاکر و گہرام کی آپسی خانہ جنگی
2۔ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف قومی مزاحمت
3۔ بلوچ سماج میں “میر” سے سردار لقب کا پس منظر
4- ایک غیر بلوچ شخص کا بلوچستان میں نفسیاتی تجربات
5- ان نفسیاتی تجربات کا سماج میں پڑنے والے منفی اثرات
مشہور یونانی تاریخ دان پلوتارچ کا کہنا ہے کہ ماضی دراصل واقعات کا مجموعہ ہوتا ہے جسے ہم تاریخ کہتے ہیں جو کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے اسے دیوتا بھی بدل نہیں سکتے لیکن ان واقعات کا صحیح تجزیہ کرنا اور ان میں موجود کمزوریوں پر غور وفکر کرنا تاریخی عمل کا حصہ ہے۔
اس زیر بحث کتاب کے پیش لفظ میں بلوچ قوم کے ڈانڈے بابل اور اس کے قرب و جوار ملانے کی بابت لکھتا ہے جو ان کی حسنِ قیاس اور جذباتیت کو عیاں کرتا ہے۔
کتاب میں بلوچ قبائلی سرداروں کی زاتی رنجشوں اور انا پرستی کی وجہ سے ہونے والے خانہ جنگیوں کا بھی زکر ہے خصوصاً رند و لاشار کی تیس سالہ برادر کشی، جس میں رند سردار کا بیرونی عناصر (افغانی ارغونوں) کو لاشار لشکر کے خلاف استعمال کرنے کا حوالہ ہے۔
ایک طرف بلوچ تاریخ دان و دانشور میر چاکر رند کو عظیم شخصیت کے حوالے سے تعبیر کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف بلوچ شاعر و مصنف میر گل خان نصیر میر چاکر رند کو ڈاکو اور لٹیرا قرار دیتے ہیں لیکن عزیز بگٹی میر چاکر رند کو بہادر، دلیر، باصلاحیت سردار مانتے ہیں مگر انہیں کسی طور اچھا قائد تصور نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کی نظر میں ایک اچھا قائد قومی مفادات کو دیکھ کر پالیسیاں مرتب کرتا ہے اور ریاست میں امن و امان قائم رکھنے کا زمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن میر چاکر رند تو بذات خود قوم کو تیس سالہ برادر کشی کی آگ میں دھکیلتا ہے۔
رند و لاشار کی آپسی خانہ جنگی کے حوالے سے میر گوہرام کچھ اسطرح اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے کہ
“ہمیں وہم و گمان تک نہ تھا اور نہ ہی ہمارا دل و دماغ یہ ماننے کو تیار تھا کہ رند اور ڈومکی ترک گھوڑوں سے ہم پہ حملہ آور ہو سکتے ہیں”
رند و لاشار کی یہ آپسی خانہ جنگی کا وجہ صرف میر ریحان رند اور میر امین لاشاری کا گھڑ سواری کا مقابلہ تھا جس کو بعض مصنفین برابر قرار دیتے ہیں لیکن رند تاریخ گو میر ریحان کو فاتح قرار دیتے ہیں۔
تاریخ ساز شخصیات اپنے دور اندیشی، معاملہ فہمی اور دانشمندی سے حالات کو قابو کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور اس کتاب میں عزیز بگٹی میر بیورغ رند کو اولین بلوچ ڈپلومیٹ تصور کرتے ہیں اور انہیں میر گہرام و میر چاکر دونوں سے بالاتر قبائلی رہنما تصور کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ اگر میر چاکر کی جگہ میر بیورغ رند ہوتے تو شاید ہم تیس سالہ خونی جنگ کا سامنا نہ کرتے اور نہ ہی تاریخ میں برادر کشی کا کوئی حوالہ ہوتا، کیونکہ میر بیورغ رند نے میر چاکر کو اس خانہ جنگی سے دور رکھنے کی ہر ممکن سعی کی اور چاکر سے مخاطب ہو کر کہا
“کوئی ایسی قدم نہ اٹھاؤ، جس کی وجہ سے تمھیں ساری زندگی پشیمانی کرنی پڑے”
بقول بیکن کے ” تاریخ ایک ٹوٹے ہوئے جہاز کے تختوں جیسا ہے جس کی تباہی کے بعد آپ تھوڑے بہت شاید سمیٹ سکیں لیکن اکثریت سے محروم ہونا پڑے گا”
بلوچ تاریخ بیرونی حملہ آوروں اور استعماری قوتوں کے خلاف نبردآزما تاریخ ہے جس کی اولین مثال پرتگیزی لشکر کا بلوچ ساحل پہ حملہ آور ہونا ہے جسے میر حمل ہوت اپنے شجاعت و بہادری سے ناکام بناتا ہے اور دشمن پر پے در پے حملہ کرکے اسے پسپا ہونے پہ مجبور کرتا ہے لیکن اس تاریخی لڑائی میں بلوچ قوم میر حمل جیسے دلیرانہ قیادت سے محروم ہوجاتا ہے میر حمل پرتیگیزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوتا ہے اور خود کو ہمیشہ کیلیے بلوچ تاریخ میں امر کرتا ہے اور یہیں سے وطن کی دفاع میں قربان ہونے کے فلسفے کا آغاز ہوتا ہے۔
گو کہ بلوچ تاریخ میں متنازعہ قیادت سے بھری پڑی ہے اور نہ ہی اس قیادت پہ آج تک فکری حوالے سے بحث و مباحثہ ہوا جس سے متعین کیا جاسکتا کہ کون قومی رہنما تھا اور کس کس نے قومی مفادات کا سودا کیا۔ مثال کے طور پر بلوچ شاعر، ادیب اور تاریخ دان میر گل خان نصیر، نوری نصیر خان کو عظیم بلوچ حکمران تصور کرتا ہے لیکن پروفیسر عزیز بگٹی نوری نصیر خان کو قومی حکمران ماننے سے انکاری ہیں اور انہیں بیرونی قوتوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں جسے بلوچ قوم پہ مسلط کیا گیا۔ اور وہ افغان حکمرانوں کی تابعداری اور خوشنودی کے لیے اپنے بھائی تک کو قتل کر دیتا ہے جو کسی بھی اچھے حکمران کے شایان شان نہیں۔ گو کہ نوری نصیر خان نے تمام تر بلوچ قوت کو یکجا کرکے اسے ریاستی شکل دی لیکن اس تمام تر دورانیہ میں وہ بلوچ قومی لشکر کو منظم اور قومی حدود کی تحفظ کرنے کے بجائے انہیں دوسروں کی لڑائی میں ڈال دیتا ہے جیسا کہ پانی پت کی لڑائی، مرہٹوں اور سکھوں کے خلاف بلوچ لشکر کا استعمال۔
برطانوی نوآبادیاتی نظام نے جب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس کے قدم بلوچ سرزمین پہ بھی پڑے۔ برطانوی قابض کا اصل ہدف افغانستان تھا لیکن وہ اپنے قدم بلوچستان میں بھی جمانا چاہتا تھا تاکہ ایرانیوں اور افغانوں کو کنٹرول کیا جاسکتا۔
برطانوی یلغار کے زمانے میں بلوچ قومی قیادت میر محراب خان کے ہاتھوں میں تھا جو کہ خود کو بلوچ ریاست کا آزاد حکمران سمجھتا تھا اور کسی بھی حال میں غلامی کو قبول کرنے پہ آمادہ نہ تھا۔ جب برطانوی فوج قلات پہ حملہ آور ہوتے ہیں تو خان کا ایک درباری محمد صدیق انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ برطانوی فوج کا مقابلہ بلوچ فوج نہیں کرسکتا۔ تو وہ آگے سے جواب دیتے ہے کہ
“میں جانتا ہوں انگریز لندن اور پورے ہندوستان کا بادشاہ ہے لیکن ہم بھی اپنی استطاعت بھر مقابلہ کرنے کیلیے تیار ہیں”
اور یوں میر محراب خان برطانوی فوج کے خلاف بہادری اور دلیری سے لڑتے ہوئے وطن کی دفاع میں اپنے ساتھیوں سمیت ہمیشہ کیلیے قربان ہوجاتا ہے۔
برطانوی قبضہ کے بعد پھیلنے والی سنڈیمنی نفسیات آج بلوچ معاشرے میں ایک ناسور بن چکی ہے جو بلوچ قوم کی ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے بلوچستان سیاسی اور قبائلی تنازعات کا شکار ہے۔
پروفیسر عزیز بگٹی اپنی کتاب ” بلوچستان سیاسی کلچر اور قبائلی نظام” میں لکھتے ہیں کہ موجودہ لقب “سردار” کا بلوچ تاریخ میں کوئی وجود نہیں ملتا ہے ابتدائی کلاسیکل شاعری میں سردار کے بجائے “میر” کا استعمال ہمیں واضح دکھائی دیتا ہے لیکن سنڈیمن نے بلوچ سماجی ساخت کو مسخ کرکے سرداری نظام کا پرچار کیا۔ سنڈیمن فارورڈ پالیسی کا حامی تھا تبھی اس نے کہا تھا کہ “سرداروں کو اپنے قبائلی معاملات میں آزاد چھوڑا جائے اور ان سے کبھی بلامعاوضہ خدمات کا توقع نہ رکھا جائے”
سنڈیمن نے بلوچ سرداران و معتبرین کو اپنا زرخرید بنا کر اپنی مرضی کا نظام چلایا اور قدیم بلوچ سماجی روح اور روایات کو دفنا دیا۔
سنڈیمن ایک ایسا غیر بلوچ کردار تھا جس کے مرتب کردہ پالیسیوں کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔
اگر ہم ریاست قلات کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں باعزم و باہمت سیاسی قیادت سے لیکر کمزور و ناامید اور قومی مفادات سے عاری قیادت بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
جہاں ایک طرف میر یعقوب خان نے انگریز حکمرانوں کے تمام تر اعزاز و انعامات کو ٹھکرا کر بلوچ مفادات کو ترجیح دی۔ وہیں ہمیں انفرادی لالچ و مفادات پرست ٹولہ بھی نظر آتا ہے۔ امیر خان نوشیروانی اپنے بھتیجے کے ہمراہ میر یعقوب خان کو شہید کردیتا ہے۔
تاریخ کبھی ساکت نہیں رہتی، اب کی بار بلوچستان میں تاریخ اپنا دھارا بدلتا ہے اور یوسف عزیز مگسی کی شکل میں بلوچستان میں سیاسی تحریک کا آغاز ہوتا ہے جو بکھرے ہوئے قبائل کو قومی احساس دلا کر ان میں نیشنلزم کا شعور بیدار کرتا ہے میر یوسف عزیز مگسی اپنے سیاست کا آغاز “فریاد بلوچستان” نامی مضمون سے کرتا ہے لیکن وائے بد قسمتی ان کا بلوچ قوم کے ساتھ یہ سفر زیادہ دیر نہیں چلا کہ شال (کوئٹہ) میں ہونے والے تباہ کن زلزلے نے بلوچ قوم سے ایک سچا اور مخلص رہنما بھی چھین لیا۔
برطانوی قبضہ کے آخری دور کا قلات حکمران خان میر احمد یار خان بھی قومی قیادت میں یکسر ناکام رہے اور بذات خود انگریز حکمرانوں کے دباؤ کی وجہ سے بلوچستان میں اٹھنے والی ہر آواز کو اپنی طاقت سے دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ بلوچ قوم کو ایک روشن مستقبل دینے کے بجائے قومی محرومیوں اور ناامیدیوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کا سبب بنے۔
ہمیں ماضی کے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جہاں ایک طرف آزاد ریاست کے کھو جانے کے باوجود بھی ہم صوبائی حیثیت ملنے پہ شادماں تھے اور سردار عطاءاللہ مینگل کی قیادت میں بننے والی صوبائی حکومت کو قومی حکومت سے تشبیہ دینے لگے۔
مصنف اپنے کتاب “بلوچستان سیاسی کلچر اور قبائلی نظام”میں لکھتے ہیں کہ عطاءاللہ مینگل بھٹو (ذوالفقار علی) کو رسمی پرٹوکول دینے کو اپنے لیے توہین سمجھتے تھے وہیں دو دھائیوں بعد ان کا صاحبزادہ سردار اختر مینگل اپنی وزارت کو قائم رکھنے کی خاطر میاں نواز شریف کی ڈرائیونگ تک بھی خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
بلوچ رہنما سردار خیر بخش مری بلوچستان کے ان چار ستونوں ( میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاءاللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی اور سرادر خیر بشک مری) میں سے ایک تھے جو ستر کی دھائی میں نیپ حکومت کا حصہ رہے لیکن جلد ہی سردار خیر بخش مری اپنے راہیں جدا کرلیتا ہے۔ وہ سستی شہرت کے بجائے خاموش سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہنے لگے اور جلد ہی ان کے سیاسی افکار ایک نظریہ کا روپ دھارنے لگے۔
نواب اکبر خان بگٹی شروع ہی سے متنازعہ شخصیت بنے رہے، خصوصاً جب وہ بھٹو حکومت کا حصہ بنے اور اس دور میں ایک نعرہ بلوچستان بھر میں مشہور ہوگیا تھا کہ ” آمریت کے تین نشان۔ بھٹو، بگٹی، ٹکا خان”۔ لیکن اپنی عمر کے آخری آیام میں جس دلیری اور شجاعت سے وہ قومی ساحل و وسائل کی خاطر خود کو ہمیشہ کیلئے امر کرتا ہے تو وہ بلوچ قوم کا ایک اساطیری روپ بن جاتا ہے۔
ان چار سیاسی ستونوں کے متعلق بقول سردار عطاءاللہ مینگل کے ” میں سیاست کے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں لیکن غوثی ( میر غوث بخش بزنجو) سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔”
ان شخصیات کی باہمی تضادات نے بلوچ قومی سیاست اور قومی وحدت کو ایک غیر یقینی کیفیت سے دوچار کیا۔ میر غوث بخش بزنجو سردار جمالی اور نواب بگٹی کو برائی گردانتے تھے بقول ان کے ” جمالی اور بگٹی دونوں برائیاں ہیں لیکن میں نے بڑی برائی کی جگہ چھوٹی برائی کا انتخاب کیا “
غوث بخش بزنجو کو بابائے مذاکرات کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے لیکن وقتی طور پر ان کے تمام مذاکرات کے تنائج نقصان دہ ثابت ہوئے۔ لیکن بلوچ قوم نے بزنجو کی زات کو چھوڑ کر ان کے سیاسی افکار کو اپنا لیا۔
پروفیسر عزیز بگٹی کی یہ کتاب بلوچ شخصات کے متعلق ایک قابل غور کتاب ہے جس کے مطالعے سے بلوچ شخصیات، ان کے نظریات، ان کے قائدانہ صلاحیات سمیت ان کے کمزوریوں کا بھی زکر موجود ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ہمیں اپنے گزرے ہوئے قیادت، ان سے ہونے والی سیاسی کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے مسقبل کے حوالے سے قیادت کے چناؤ کرنے کا سیاسی شعور اجاگر ہوتا ہے۔ جسے ہر بلوچ سیاسی طالبعلم کو پڑھنا چاہیے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔