ناامیدی – غلام رسول آزاد

792

ناامیدی

تحریر: غلام رسول آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ امیدیں پھر سے اس سال سے ہیں، جو ہر سال سے ہوتی ہیں اور پھر ناامیدی سے گذرتے ہیں اور اب کی بار بھی نجانے کیوں بار بار اداسی کی پیمائش بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف ناامیدی سی نظر آرہی ہے۔ اس سال بھی بہت ہی شاندار غموں کے ساتھ مایوسی، ظلم، بےبسی اور چار دیواری کے زندان میں بند، بھوک، پیاس، درد بھری زخموں، بےروزگاری، ٹوٹے پھوٹے تعلیمی نظام، ہر طرف بےچینی،غلامی، غداری اورنفسانفسی میں ہوں ۔

آسمان و زمین ہم سے جیسے روٹھے روٹھے ہیں، چرند و پرند ہم سے بیگانے ہوگئے ہیں۔ یہ سمندر اور ویران جنگل ہمیں اب پسند نہیں کرتے ہیں۔ بھلا سمندر کیوں ہمیں پسند کرے جبکہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے بیگانے ہاتھوں میں دیا۔ سمندر کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں، بیگانوں سے بالکل اکتا گئے ہیں ۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ یہ ہولی جانے کب ختم ہو۔

غمزدہ ماوُں کے لاپتہ بیٹے ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ماوُں نے پلکیں ان کے راستے میں بچھائے ہوئے ہیں ۔ ماں تو ماں ہوتی ہیں نا۔ غم و غصے ابھی تک عروج پر ہیں، ابھی تک ہر طرف بہنوں کی عزت نیلام ہوری ہے، ہم نے تو کہا تھا کہ ہم لج ہیں گہارانی ۔ ارئے بھئی یہ تو صرف ایک شعر تھا ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ۔

ماوُں کے آنسوؤں نے زمین و آسمان کو ہلاکے رکھ دیا ہے۔ ان آنسوؤں کے سیلاب نے بحر بلوچ کو شرمندہ کردیا ہے۔ پر ہمیں شرمندگی نہیں تو کیا ہوا ۔ ۔۔۔ مگر ماں سے جیسے پیار کرنے والا خدا ماں سے ہزار درجہ محبت کرنے والا خدا جیسے اب تو ہم سے دور ہی دور ہو گئی ہے ۔ اے خدا آپ ہی پشت پناہ ہیں ان مظلوموں اور مجبوروں کے ۔۔۔

یہ سال اور گذرے ہوئے طویل زمانے میں کوئی فرق نہیں، ہمارے لیئے جیسے کوئی صدی گذری، ہمیں تو زمانے ہوئے ہیں خوشیوں کو دیکھے ہوئے، اب ہمیں تو ایسے لگتا ہے، جیسے خوشیاں بھی روٹ گئے ہیں، مسکراہٹ تو ہوتی ہے، بس خود کو دلاسہ دینے کیلئے کہ شاید اب کے بار کوئی باہر آئے اور غموں کو ختم کردے اور سازشوں کو شکست دے کر ایک نئے مستقبل کے ساتھ صبح کی پہلی کرن نظر ہو۔ ہمیں بس اتنا معلوم ہے کہ ہمارے بعد ظلمتوں کے یہ شب ختم ہونگیں۔ اندھیر نگری میں ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔ جہاں ماوُں کی پلکیں نم نہیں ہوں گے بلکہ ان کے نرم و نازک ہونٹ پہ مسکان ہو گا۔ شادمانی ہوگی۔ ہریالی سی ٹھنڈک ان کے من پر راج کرے گی ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔