میں ہچکچاتا بہت ہوں
تحریر: نود شنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی میں ہر انسان کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی تقاضے کو بنیاد بنا کر کسی ایسے کام سے جان چھڑواتا ہے جسے کرنا اسی فرد کو ہی ہوتا ہے، شاید مشکلات یا پھر کسی خوف یا ڈر کی وجہ سے اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ کوئی اس بات سے ڈرتا ہے شاید کے اسکو سماجی ہم آہنگی نہ مل پائیگی یا پھر موت کا خوف، نوکری کھونے کا خوف ، اپنے جگر گوشوں سے دوری کا خوف ، شاید اس بات کا خوف کے جو اس کام کو کرنے کے بعد مشکلات آئینگے ان سے نمٹنے کا خوف یا کوئی ایسی انجان خوف جو ایک انسان کے زہن پر حاوی ہوکر اسکے اوصاف کو اپنے تابع کر سکنے کی قوت اور اہلیت رکھتی ہو۔ بطور قوم ہم ہمیشہ اس بات سے گبھراتے اور ہچکچاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟ میں کہیں غلط تو نہیں کر رہا ؟ کہیں دشمن مجھے ڈھونڈ تو نہیں لیگا ؟ ان وہمی اور غیر فطری سوالات کی جال کو بچھانے میں سامراج پیش پیش دکھائی دیتا اور کرتا آرہا ہے۔ انسان اپنے سماج میں پھیلی ہوئی دشواری اور دشمن کے چالوں کو سمجھنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچتا ہے شاید وہ اس ہچکچاہٹ پر قابو پالے۔
اس کیفیت پر غلبہ تبھی ممکن ہے جب انسان اپنی ذمہ داری کو اپنا فرض اور نصب العین سمجھے، کیونکہ تاریخ اس طرح کا کسی واقعے کی نشاندہی نہیں کرتی جہاں ایک پرائے قوم نے اپنے سے جدا کسی قوم کی ترقی اور فلاح کیلئے کام کیا ہو۔ دنیا میں جتنے بھی فلاحی ریاستیں ہیں انکو اپنے ہی لوگوں نے نہایت ہی مخلصی کے ساتھ کامیابی کی راہ پر گامزن کیا ہے نا کہ انکو کوئی بیرونی طاقت نے ترقی دی ہو۔ بطور قوم اس نا جھٹلانے والے المیہ کو سمجھنا ہوگا کہ آج اگر ہماری سرزمین ہے، ہماری قوم ہے، ہم اذیت سہ رہے ہیں ، ہم اپنے لخت جگروں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تو کیونکر میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مجھے ہی آزادی لینی ہے، مجھے ہی اس کرب و عذاب سے نجات خود کو دلانا ہے، تو میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہوں کہ میری جگہ کوئی اور جنگ کرے؟ کیوں میں اپنے فرض سے آنکھیں چرا رہا ہوں ؟ کیوں میں دوسروں پر امید کی آس لگائے بیٹھا ہوں ؟ ان سب کا جواب ایک ہے اور وہ ہے میری کمزوری جو نظریاتی بنیادوں کو مضبوط نا ہونے کی وجہ سے دو چار ہوں۔
بطور قوم ایک ایسی سوچ کو پالنا کہ وہ قومی جہد نہیں بلکہ کچھ مراعات اور باہر جانے کے موقعے کی تلاش میں بیٹھنا بھی جہد سے جڑنے سے ہچکچاہٹ ہی کی قسم ہے۔ ہر جگہ ہر دور میں اقوام عالم میں جنہوں نے بھی جنگیں لڑیں اپنی بقا اور شناخت کیلئے یقیناً ان میں غیر مخلص، نیم انقلابی اور ایسے شخص شامل ہوئے ہیں جو نظریاتی حوالے سے شاید ہی بچار کرتے تھے، وہ نظریے سے ہٹ کر ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے ہیں اور نیم راہ اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دیکر دشمن کے سامنے سرخم کر کے اپنے آپکو دائمی ذلت سے دو چار کیا ہے۔ نیم انقلابی لوگوں کی دوستوں کی صفوں میں آنا اور شامل ہونا، اور ایسے لوگوں کا شامل ہونا کہ وہ شروع سے اس امید کی آس لگائے جہد کا حصہ ہوتے ہیں کہ شاید حالات ہمیشہ ایک جیسے ہونگے، ہمیشہ گوریلوں کا پلڑہ باری ہوگا، نہیں، ہر گز نہیں بلکہ جنگ ایک میزان کی طرح ہے جو اپنی طرف جتنا محنت کا بار ڈالتا جائیگا اسکا پلڑا اتنا ہی بھاری اور مضبوط ہوتا ہے۔
ایسے لوگ اپنی غلطیوں کو چھپانے کیلئے تنظیم، تنظیم سے منسلک دوستوں اور قوم کی عدم تعاون کو بنیاد بنا کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور اپنی کمزوری اور زندگی کو طوالت دینے کیلئے اپنے ذہنوں میں پلتے، ہچکچاہٹ کی رونمائی کرتے ہیں۔
یہ سامراج بھی چاہتا ہے کہ لوگ ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہوں اور فیصلہ نہ لینے کی ایسی حالت میں ہوں کہ ہر طرف ہچکچاہٹ کی کشمکش اپنی طرف کھینچتی چلی جائے، یہاں تک کہ استحصال اس ہچکچاہٹ کو کوئی نا کوئی شکل دیکر اپنے حق میں استعمال کرے، یعنی کبھی وہ اس ہچکچاہٹ کو مذہبی رنگ دیکر لوگوں کو ڈراتا ہے اور کبھی اپنے خوف کی سما کو برقرار رکھ کر لوگوں کو دائمی کشمکش سے دو چار رکھتا ہے۔
آزادی بھی چاہتا ہوں، انصاف بھی ضروری ہے، برابری کی خواہش ہے، ذات پات سے نفرت ہے، استحصال بھی قبول نہیں لیکن پھر بھی لڑنے سے، اپنے حصے کی بار اپنے کندھوں پر لینے سے ہچکچاتا ہوں۔ جی ہاں میں ہچکچاتا ہوں، بطور فرد ہچکچاتا ہوں، بطور قوم بھی ہچکچاتا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔