موت اور زندگی کی سیاست، بلوچستان بطور طبقاتی تجربہ گاہ – نودشنزمندی

602

موت اور زندگی کی سیاست، بلوچستان بطور طبقاتی تجربہ گاہ

تحریر: نودشنزمندی

دی بلوچستان پوسٹ

سامراج اپنے ظالمانہ پنجوں کو اپنے کالونیز پر جمانے کیلئے مختلف ہتھکنڈوں اور زاویوں سی جانچ کر اس پر انکے نیچر کے مطبق چالیں چلتا اور بدلتا ہے، بقول “فرانز فینن” (جو الجزائر کی آزادی کیلئے کوشاں ایک لکھاری اور انقلاب برپا کرنے والوں کے استاد مانے اور جانے جاتے ہیں) کہتے ہیں کہ سامراج ہمیشہ محکوم اقوام کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر وہ اسکی حاکمیت کو تسلیم کریں گے اور اسکے آلہ کار بن کر اپنے ہی قوم سے غداری کا مرتکب ہوکر کالونائزر کی معاونت کر کہ اسکی عمر بڑھانے میں کردار ادا کریں تو دشمن انہیں پر آسائش اور من پسند زندگی دیگا۔ انکو لالچ دیکر انکا معاوضہ یا صحیح معنوں میں کہا جائے انکی قیمت انہیں دیکر نہ صرف غلام بناتا ہے بلکہ انکو کٹھ پتلی کی طرح استعمال بھی کرتا ہے۔

انہیں انسان سے غیر انسان یا نیم انسان بناتا ہے، غیر انسان سے مراد انکو وہ اس طرح اپنے تابع کرتا ہے کہ وہ اپنے سوچنےکی قوت کھو دیتے ہیں اور وہ اس قدر ایک مادی شے کی مانند ہوتے ہیں کہ سامراج انہیں اپنی من چاہے کام کرواتا ہے اور انہیں استعمال کرتا ہے۔ جبکہ نیم انسان سے مراد سامراج اپنے محکوم اقوام کے افراد کو اس قدر زہنی طور پر نابینا اور بہرا بناتا ہے کہ وہ دیکھ کر ان دیکھا اور سن کر اَن سنا ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں لیکن وہ اس قدر زہنی مفلوج ہوتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلہ کرنے کی اور سوچنے کی قوت کھو چکے ہوتے ہیں جبکہ انکو سامراج استعمال نہیں کرتا بلکہ انقلابیوں کی معاونت سے دور اور غلامی کے زیادہ نزدیک کرتا اور بنا منشاء کے اپنے خوف کی بدولت انہیں ڈرا کر خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ جبکہ اگر وہ اسکےبرعکس اسکی حاکمیت کو سوال کریں گے اور اپنے انسانی بنیادوں پر رسیدہ حقوق کے حصول کی بات کریں یا اپنے قوم کے نجات کی بات کریں تو ان سے پر آسائش اور پر رونق زندگی چھیں لی جائیگی اور بھوک، افلاس اور دربدری سے اسکی زندگی کی تقدیر لکھ دی جائیگی، اس پر آسائش اور پر رونق زندگی کے حصول اور چھن جانے کو مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر دینے اور چھیننے کے عمل کو “زندگی کی سیاست” یا “ بائیو پا لیٹکس” کہا جاتا ہے۔

بائیو پالٹکس کے تنقید میں پیش کی گئی سیاست کو “نیکرو پالٹکس” یا موت کی سیاست کہتے ہیں جو “ایشلے بیمبے” (Achille Mbembe) نے اپنی کتاب (Necropolitics) یعنی موت کی سیاست میں پیش کی۔ موت کی سیاست کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ سامراج اپنے محکوم اقوام کو پرآسائش زندگی کی پیشکش نہیں بلکہ صرف زندہ رہنے کی اجازت دینے کی پیشکش کرتا ہے، یعنی سامراج محکوموں کو یہ کہتا ہے کہ اگر وہ اسکی حاکمیت کو تسلیم کریں گے اور اس پر سوال اٹھانے کے حق سے دستبردار ہوکر دائمی غلامی کو اپنے گلے کا ہار سمجھ کر طوق کی طرح پہن لینگے تو انہیں موت نہیں دی جائیگی، سامراج اپنے نزدیک یہ ٹھان لیتا ہے کہ سامراج کے مفاد صرف اور صرف معاشی ہوتے ہیں جبکہ اسکے علاوہ وہ کسی بھی چیز کو ترجیح نہیں دیتا، دنیائے سیاست کا اصول رہا ہے کہ جب بھی کالونائزر یا قبضہ گیر کسی قوم پر قابض ہوئے ہیں تو وہ اپنے ساتھ کچھ چرب نعرے ( oily slogans) لائے ہیں تاکہ انکے غیر آئینی قدم کو جواز مل سکے مثلاً، ہم کاہلوں کو تہذیب یافتہ بنانے کیلئے آئے ہیں، یہ خود پر حکمرانی نہیں کر سکتے ہم انہیں سنبھالنے آئے ہیں، جیسی باتوں اور نعروں سے دنیا کا منہ بند کرتے آتے ہیں، جبکہ “ بیمبے” کہتے ہیں کہ استعمار اس وقت تک کسی قوم کی حاکمیت سے دستبردار نہیں ہوتا جب تک وہ نقصان سے زیادہ معاشی فائدہ اٹھاتا ہے۔ سامراج ان محکوم اقوام کو محض زندگی کی اجازت کو ہی ایک بہت بڑی نعمت سمجھ کر دیتا ہے۔

زندگی اور موت کی سیاست کو اگر بلوچستان پر سامراجی حربہ سمجھ کر دیکھا جائے تو، بلوچستان میں دونوں سیاستوں کو طبقاتی طور پر پریکٹیکل کیا جاتا ہے کیونکہ بلوچ سماج میں مڈل کلاس(middle class)، لوئر مڈل کلاس(lower middle class )، اور لوئر کلاس (lower class) پر موت کی سیاست کو تجربہ کرتا ہے، جبکہ الیٹ کلاس ( class elite) جو نواب، سردار، وڈیروں اور میروں پر مشتمل ہے پر زندگی کی سیاست کا تجربہ کرتا آرہا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔