زرینہ مری کو کوہلو سے لاپتہ کرنے کے بعد کراچی کے حراستی مرکز میں رکھا گیا – حامد میر

1396

پاکستان کے معروف صحافی و تجزیہ نگار حامد میر نے انکشاف کیا کہ زرینہ مری کو دو ہزار سات میں کوہلو سے لاپتہ کرنے کے بعد اسے کراچی کے حراستی مرکز میں رکھا گیا ۔

دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق پاکستان کے معروف صحافی و تجزیہ نگار حامد میر نے اپنے ایک مختصر ٹویٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل،  نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء میر حاصل خان بزنجو اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء نصر اللہ بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ زرینہ مری کی بازیابی کا مطالبہ کیوں کر لاپتہ ہے۔

حامد میر کے سوال کے جواب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رسمی صفحے سے لکھا گیا آپ (حامد میر)نے بجا فرما یا کہ ہمارے مطالبات میں زرینہ  لاپتہ ہے، شروع میں کچھ لوگ احتجاجی کیمپ آئے انکا کہنا تھا کہ ہم متاثرہ لڑکی کے لواحقین ہیں، بعد میں تنظیم عدالت میں یہ کیس لے جانے کے لیے لواحقین سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی تو ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جواب میں حامد میر نے مزید لکھا کہ ‏زرینہ مری کے لواحقین خوفزدہ ہیں اس لئے آپکے پاس دوبارہ نہیں آئے، دو ہزار سات  میں سکول ٹیچر زرینہ مری کو کوہلو سے اٹھایا گیا تو اسکا دودھ پیتا بچہ مراد بھی اسکے ساتھ تھا پھر یہ بچہ اس سے چھین لیا گیا۔

حامد میر نے مزید انکشاف کیا کہ زرینہ مری کو کراچی کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا لیکن کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ اس وقت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوچکے ہیں اور ان ہی لاپتہ افراد میں سے ہزاروں کی  مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں ۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے گذشتہ ایک دہائی سے کوئٹہ و کراچی میں پرامن احتجاج بھی جاری ہے ۔