حقِ تنقید
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
اختلاف برائے اختلاف، تنقید برائے تنقید، تحریر برائے تخریب، اظہار برائے انتشار کے بغیر، گر کلی طور پر حقائق و سچائی کے بنیاد پر نشاندہی پیش خدمت ہو۔ نیت، اردہ اور سوچ خالصتاً اخلاص و اصلاحی سوچ و سمجھ پر مشتمل ہو تو سیاسی و سماجی جمود کو توڑنے میں ہمیشہ معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔
کچھ ذاتی تجربات و مشاہدات، کچھ ادراک اور پیش بینی کے تناظر میں کبھی خوف و اندیشہ، کبھی خطرے کی گھنٹی بجنے کی آواز دل و دماغ میں عجیب و غریب سی کیفیت طاری کرتی ہے کہ ہر عمل کیا ردعمل لیکر آئے گی، ہر تسلسل کس نتیجے پر منتج ہوگی؟ محنت، خون و پیسنے اور قربانیوں میں پلتے ہوئے، چلتے ہوئے، مقدس و عظیم تحریک کا کیا ہوگا؟ جس سے ایک پوری عظیم سرزمین و قوم کی بقاء نتھی ہے۔ جس سے ہزاروں شہداء کے ارمان وابستہ ہیں، جس سے ایک زندہ و تابندہ تاریخ منسلک ہے۔
وہ شخص بدبخت، نالائق، نکما، بزدل، جاہل حتیٰ کہ آخری سطح کا ان پڑھ و احمق ہی ہوگا کہ آج اگر اس عظیم تحریک و جنگ ہی سے مایوس اور نا امید ہو۔ تلخ حقائق اور تحریکی کمزوریوں و غلطیوں کی نشاندہی اور تشخیص و علاج کا مقصد خود ہی جنگ اور تحریک سے ڈھیر سارے امیدوں کی وابستگی کا واضح ثبوت و علامت ہے۔
اکثر اوقات یہ دہرایا جاتا ہے کہ تنظیموں و تحاریک میں معمولی و غیر معمولی اختلافات و تضادات آتے رہتے ہیں اور آگے بھی آتے رہیں گے، مگر ہمیشہ ان پر نظر رکھنا، بروقت حل طلب اختلافات و تضادات کی بنیادی وجوہات کو باریک بینی و تحقیق سے باہر نکالنا اور ان کا مستقل حل و علاج کروانا تنظیم و تحریک کی صحت مندی کا ضامن ہوسکتا ہے۔
تحریکی و تنظیمی اختلافات و تضادات کو نظر انداز کرنا، دبانا، منہ پھیر لینا، مصلحت پسندی، لحاظ و خاطر رواداری سے کام لینا یا پھر وقتی طور کا حل و علاج نکالنا ایسا ہے جیسے سرطان کا علاج بلا تشخیص سردرد کے گولیوں سے کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر سرطان کی تشخیص بروقت نا ہو، اور کماحقہ علاج نا ہو تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تنظیمی و تحریکی امراض و کمزوریوں کی نشاندہی و تشخیص اور اس کا بروقت مستقل حل و علاج ہی تحریک و تنظیم کو زندہ رکھنے کا بہترین و مناسب فارمولہ ہوتا ہے۔
اگر نشاندہی و تشخیص اور طریقہ علاج و معالجہ غلط اور اصل حقائق کی بنیاد پر نا ہو، جھوٹ و غلط بیانی پر ہو، تو اس پر مثبت و مدلل انداز میں بحث و مباحثہ لازمی ہے، صرف اور صرف کم علمی، سطحی سوچ، خام خیالی، نفرت و حسد، بدنیتی اور ذاتی عناد کی بنیاد پر مسترد کرنا خود ہی جاہلیت کی انتہاء ہوگی۔
لیکن بلوچ کی تحریک میں یہ تنقید اور نشاندہی کا عمل ہمیشہ ایک متنازعہ عمل کے طور پر دیکھا گیا ہے، جہاں تنقید کرنے کو ہر کوئی اپنے بنیادی حق کے طور پر دیکھتا آیا ہے، اور اسے نیک نیتی اور اظہارِ رائے کی آزادی سے نتھی کرتا آیا ہے، وہیں ایک سانس میں خود پر ہوئی تنقید اور اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کو تجاوزِ حد اور سازش بھی قرار دیتا آیا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ ناقد کے نیت پر شکوک رہے ہیں۔ اسی لیئے اس تحریک میں سیاسی علم کی وجہ سے تنقید کی اہمیت سے منکر نہیں ملتے، لیکن حقِ تنقید آسانی سے کسی کو تفویض کرنے سے انکار بہت سے “اگر، مگر اور لیکن” کی صورت میں ملتا ہے۔
یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تنقید کے بابت ان شکوک و شبہات کی وجہ اس امر میں پوشیدہ ہے کہ تاریخی طور پر بلوچ سیاست میں تنقید کو بطور ہتھیار موجود کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو زِیر کرنے کے بجائے مخالفین کو زیر کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔
لیکن مذکورہ بالا امر ہمیں اس بات سے بھی مستثنیٰ نہیں کردیتا کہ ہم جائز مسئلوں کی درست نشاندہی نا کریں، اور درست نشاندہی کرنے والے اور تنقید کرنے والے کے حق کو تسلیم نا کریں، اور یہ تعین نا کریں کہ یہ حق کسے حاصل ہے؟
اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اگر کسی مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے، کسی فعل پر تنقید ہوتی ہے تو وہ حقیقی ہو، معروضی جڑیں اور موضوعی دلالت رکھتی ہو۔
کیا کسی تنظیمی کارکن کو اپنے یا دوسرے تنظیموں پر تنقید کا حق حاصل ہے؟ ہاں! اپنے تنظیم پر وضع کردہ اداروں کے اندر تنقید کا حاصل ہے، اگر تنظیم وہ ادارے مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر تنظیم پلیٹ فارم سے باہر محض ان امور پر تنقید کرسکتا ہے جو تنظیمی رازداری کے زمرے میں نہیں آئیں۔ بطورِ سیاسی کارکن آپکو دوسرے تنظیموں، مجموعی تحریک یا سماجی مسائل پر تنقید کا بھی حق حاصل ہے۔ لیکن دوسرے تنظیم پر تنقید کا مطمع نظر تنظیمی رقابت یا مقابلہ بازی نا ہو۔
کیا غیر تنظیمی لوگوں کو کسی تنظیم یا تحریک پر تنقید کا حق حاصل ہے؟ یقیناً! یہ تنقید اور نشاندہی وہ غیر جانبدار آئینہ ہوتا ہے، جس میں تحریک اپنا چہرہ زیادہ صاف دیکھ سکتا ہے۔ یہ عموماً قوم کے دانشوروں یا دلچسپی رکھنے والے غیر تحریکی لوگوں کی جانب سے سامنے آسکتا ہے، اسکیلئے محض ایک شرط ہے کہ یہ تنقید دشمن کے پروپگینڈے سے متاثر نا ہو۔
کیا کوئی تنظیمی یا تحریکی رہنما یا ذمہ دار بھی اختیار دار رہنے کے باوجود سیاسی و سماجی مسائل پر تنقیدی تحریر و تقریر کرسکتا ہے؟ بالکل ہاں! بلکہ کسی رہنما کیلئے یہ ایک انتخاب نہیں بلکہ فرض ہے۔ کیونکہ یہ تنقید کے اعلیٰ سطح خود تنقیدی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ ایک ذمہ دار مسائل کے ٹھوس حقیقت پر عملی تجربہ رکھتا ہے، لہٰذا بیان پر قدرت قدرے عملی ہوتا ہے۔ رازداری کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، اسکی جانب سے تحریکی، تنظیمی و سماجی مسائل پر تنقیدی جائزہ ایک سرجری کی مانند ہوتا ہے، جو مسائل کے جسم کو کھول کر حقیقی مسئلے کی نشاندہی کرسکتا ہے۔
ایک سربراہ بغیر تنقیدی نقطہ نگاہ کے سربراہی کا حق محفوظ نہیں رکھتا ہے۔ سیاسی، سماجی مسائل ہوں یا تحریکی مسائل پر تنقید، یہ اسکے جدوجہد کا جواز ہیں۔ اسے ایک سسٹم کے خلاف جدوجہد کرنا ہو، یا اپنے ہی تحریک یا تنظیم کے اندر مسائل کے خلاف، اول اسے ان مسائل کی نشاندہی کرکے، دلیل دیکر انہیں مسائل ثابت کرنا پڑے گا، تبھی اسکے اقدامات کو جواز حاصل ہوسکتا ہے۔ اگر وہ اس سے قاصر ہے تو اسکا مطلب سب صحیح چل رہا ہے، اور اسکے اقدامات بلا جواز ہیں۔ اسی لیئے ہمیں ماؤ، لینن اور منڈیلا کی زیادہ تر تحریریں یا تو اپنے سیاسی و سماجی مسائل پر تنقیدی جائزوں کی صورت میں ملتی ہیں یا پھر تربیتی ہوتی ہیں۔ ایک سادہ سی مثال یہ لی جاسکتی ہے کہ ایک بلوچ رہبر پاکستانی پارلیمنٹ کے نقصانات، اسکے بلوچ سماج پر منفی اثرات اور اسکے بلوچ قوم کیلئے بے سود ہونے پر دلیل دیئے بغیر، اسکی نشاندہی کیئے بغیر، اس پر تنقیدی جائزہ پیش کیئے بغیر، کیسے پارلیمانی سیاست کو مسترد کرکے آزادی کی جدوجہد کا جواز رکھ سکتا ہے؟ اسی امر کا انطباق تحریکی مسائل پر بھی ہوتا ہے۔
ایک ذمہ دار کا اپنے قدرت کے اندر مسائل پر تنقید کرنے کا معنی یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیئے یا ہوتا ہے کہ وہ مستثنیٰ ہوچکا ہے اور وہ کسی اور پر الزام دھر کر انکے حل کا مطالبہ کررہا ہے بلکہ ذمہ داریوں اور تجربے کی وجہ سے مسائل کا بہتر ادراک رکھنے کی وجہ سے یہ اسکا فرض ہے کہ وہ بغیر لیپا پوتی کے سیاسی و سماجی مسائل کی تشریح کرکے کارکنوں میں یوٹوپیائی خیالات کے بجائے حقیقت پسندانہ رجحانات پیدا کرے۔
ماضی قریب کے ڈھیر سارے تحریکی و تنظیمی کمزوریوں، غلطیوں، غیر انقلابی رویوں، ضد و انا اور ہٹ دھرمیوں سے لیکر اپنے مشاہدات و تجربات کے ساتھ دیگر دنیا کی تنظیموں و تحریکوں کے مطالعے سے اگر سبق و نصیحت حاصل نہیں ہوگا اور زمان و مکان کے فرق اور غلطیوں و کمزوریوں کو دوسرے شکل و ڈھنگ میں پھر سے دہرایا گیا پھر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا بلکہ ایک گول دائرے میں گھومنے اور ہر بار بلکہ بار بار صفر سے شروع ہونے کا چکر لگا رہے گا۔
یہی خدشہ و اندیشہ اور وہم بار بار نشاندہی کرنے پر مجبور کردیتی ہے تاکہ مجھ سے لیکر ہر جہدکار، ہر غیر انقلابی و غیر تحریکی رجحانات و رویوں کو صحیح معنوں میں سمجھ کر ان سے خود گریز کرے بلکہ ان کا روک تھام کرے، اگر ارادہ و نیت سوچ اور شعور ایک منظم قومی تنظیم و قومی ادارے، قومی جنگ اور قومی تحریک کی ہے، تو وہ جنگ، وہ تحریک، وہ تنظیم پوری دنیا میں ایک رول ماڈل اور ایک زندہ تاریخ ہو۔
اگر ارادہ صرف وقت پاسی یا وقت کو دھکا دینے کا ہے، پھر میرا ذاتی رائے یہ ہے کہ ہم وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ میں بھی سب کے سب ضائع شدہ جہدکاروں کی فہرست میں شمار ہونگے۔ پھر تحریک میں آنے یا نہ آنے کا حساب برابر ہے۔
اس حوالے سے ہمیشہ سنجیدگی سے سوچنا، سمجھنا اور غور کرنا بے حد ضروری ہے، ہم آئے کیوں اور آج کیا کررہے ہیں؟ جو کررہے ہیں واقعی وہ تحریکی تقاضات کو من و عن پورا کررہا ہے؟ اور تقاضات کو جاننے اور سمجھنے کا معیار اپنا خود کا معیار یا چند لوگوں کا معیار نہ ہو بلکہ دنیانوی اور عالمی سطح کا معیار ہو، تب جاکر اندازہ ہوگا کہ گر ہم کھڑے ہیں، تو کہاں کھڑے ہیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔