توتک آپریشن کا ایک دہائی – برناز بلوچ

867

توتک آپریشن کا ایک دہائی

تحریر: برناز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سردیوں کا موسم اور پھر ماہِ فروری میں یہ موسلادھار بارشیں , ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، جب ہمیں چھو کر گذرتی ہیں تو بڑی بےدردی سے ان واقعات کی یادوں کا ہم پر وار کرتی ہیں جو ماہ فروری میں وقوع پذیر ہوئیں۔

یوں تو سرزمینِ بلوچستان کی باسیوں پر ظالم ریاست نے کم ظلم نہیں ڈھائے، پہلے جب کسی آدمی کے جبری گرفتاری کا خبر سنتے تو دل جم جاتا، روح کانپ اٹھتی، رونگھٹے کھڑے ہوجاتے، ایک خوف طاری ہوجاتا اور ہم فکرمند ہوکر سوچوں میں ڈوب جاتے کہ کیا ہوگا، اب اُس انسان کا جو اِن درندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، اُس کے خاندان پر کس طرح کی کیفیات طاری ہونگے، کس درد سے وہ گذر رہے ہونگے؟

مگر گذرتے وقت کے ساتھ جب مادرِ زمین کی حق میں مزاحمت پروان چڑھتی گئی , تو دشمن فوج کی ردِ عمل مظالم کی شکل اختیار کرتے ہوئے مزید بڑھتی گئیں ۔ اور آہستہ آہستہ یہ غیرمعمولی باتیں عام باتوں جیسے سنائی دینے لگیں اور سامعین کی وہ کیفیات مزید نہ رہے چونکہ معمول کے حساب سے المناک واقعات رونما ہوتے گئے اور ردعمل دھیما پڑتا گیا۔

ہاں! لیکن ظلم تو ظلم ہے، جس کے خلاف پوری قوم نہیں تو ایک ادھ غیرت مند لوگ ضرور اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور دشمن کو للکارتے ہیں، نتیجوں کی پروا نہیں کرتے اور آخرکار حق کی راہ میں جان قربان کرکے مدام امر رہتے ہیں، قوم جن پر فخر محسوس کرتی ہے، مائیں جن کی دلیری کے قصے اپنے بچوں کو سناتی ہیں تاکہ وہ بھی ایسے ہی جذبے رکھیں اور اُن کے مقصد کی تعاقب میں ایک دن نکل پڑیں۔

کہیں ظلم کے خلاف مزاحمتی واقعات بھی تاریخ اور لوگوں کی دلوں میں بھیانک ہونے کی وجہ سے گھر کر جاتی ہیں، جنہیں بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور ایسا ہی ایک واقعہ 18 فروی 2011 میں بلوچستان کے ضلع خضدار کے ایک نامی و سرداری شہر توتک میں پیش آیا، جب دھرتی ماں کے فرزند توتک شہر میں کسی سنگت (دوست) کے ہاں ٹہرے ہوئے تھے اور علی الصبح دشمن نے پورے شہر کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اور پھر فائرنگ شروع کردی ۔ فائرنگ کی آواز سن کر کچھ دوست فوراً باہر نکلے کہ آیا فائرنگ کیسی ہے؟ باہر جاکر پتہ چلتا ہیکہ دشمن نے ہمیں گھیرے میں لے لیا ہے جبکہ لوگ حیران و پریشان گھروں سے باہر گلیوں میں کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر دوست فوراً بیٹھک کی جانب دوڑتے ہیں اور دیگر ساتھیوں کو باخبر کرتے ہیں کہ ہم دشمن کے گھیرے میں ہیں اور جلدی نکلنے کی تجاویز دیتے ہیں، مگر واقعے کی اچانک وقوع پذیری کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں۔

اُدھر ہانی کے دو دلیر و باہمت اور جذبے سے سرشار فرزند اپنے دوستوں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے دشمن فوج کے ساتھ جھڑپ میں لگ جاتے ہیں اور بڑی دلیری سے اُن کا سامنا کرتے ہیں تاکہ باقی دوست محاصرے سے نکلنے میں کامیاب ہوسکیں۔ یہ دو جانباز اور کوئی نہیں، شہید نعیم جان و یحیٰی ہوتے ہیں۔

کتنے خوش نصیب ہیں وہ مائیں جنہوں نے ایسے دلیر جنم دیئے، جن پر وہ فخر محسوس کرسکیں اور کتنی خوش نصیب ہونگے وہ اولاد جنہیں تاریخ قائم کرنے والی مائیں مِلیں، جن کی عظمت کو تولا نہیں جاسکتا، جو اپنی لختِ جگروں کو دھرتی ماں کی راہ پر قربان کرنے سے کتراتی نہیں، حتٰی کہ خود انہیں محاذ پر روانہ کرتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی اُدھر زندگی انہیں چھین بھی سکتی ہیں۔

ایسی ہی اِیک دلیر ماں دشمن کے ساتھ جھڑپ میں مشغول بیٹے کی طرف دوڑتی ہے اور بیچ رستے اُن کی نظر بڑے بیٹے پر پڑتی ہے، جو اپنے دیگر ساتھیوں سمیت دشمن کے مقابلے کا منتظر ہوتے ہیں اور اُن سے مخاطب ہوکر اُنہیں ایک مخصوص اور محفوظ جگہ چھپنے کی تلقین کرتی ہے، اور بیٹے کو نصیحت کرتی ہے کہ اپنے دوستوں کو اکیلا کسی حال میں نہیں چھوڑنا ، اُن کی حفاظت کرنا ہے، ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا ہے۔ دشمن کے ساتھ جھڑپ میں نعیم جان و یحیٰی شہید ہوجاتے ہیں، قابض فوج گھر گھر تلاشی لیتی ہے، قیمتی سازو سامان لوٹ کر گھروں میں آگ لگا دیتی ہے ، ہرطرف دھواں ہی دھواں ، متاثرین کی درد بھری چیخیں چاروں طرف گونج اٹھتی ہیں، ایک ایسا واقعہ جو قیامت کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔

صبح کی شروع ہوئی آپریشن شام تک برقرار رہتی ہے، بےرحم و وحشی فوج اپنی ہر طرح کی ظلم و زیادتی ڈھانے کے بعد درجنوں افراد ایک ہی خاندان کے جن میں بوڑھے اور جوان شامل ہیں حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے جاتی ہے۔

اور تب دیگر دوستوں کو اطلاع مل جاتی ہے کہ کچھ دوست جھڑپ میں شہید ہوچکے ہیں اور درجنوں دشمن اپنے ساتھ لے گئی ہیں، مگر وہ جلدی شہر سے نکل جائیں، کیونکہ دشمن کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب واپس لوٹ آئے اور وہ پھر لوگوں پر قیامت برپا کردیں۔ نجانے کس درد کے ساتھ وہ شہر اپنی دوستوں کی لاشوں کو بحالت مجبوری چھوڑ کر نکل رہے ہونگے ، اور ایک محفوظ جگہ پہنچ چکے ہونگے۔ بقول ایک سنگت کہ شہر سے نکلنے میں کامیابی کے بعد غمزدہ حال میں جب وہ ایک اونچی پہاڑی پر بیٹھے تھے تو موبائل پر کال آئی ، فون اٹھاکے دیکھتے ہیں تو ماں ہوتی ہے جو کال اٹینڈ کرنے پر فوراً بیٹے سے دوستوں کی حالت کا پوچھتی ہیں اور مثبت جواب سن کر خدا کا شکر بجالاتی ہیں ۔ یہ وہی ماں ہوتی ہے جس کا بیٹا (نعیم جان) دشمن کے ساتھ جھڑپ میں جان کی بازی ہارتا ہے ، جس کے خاندان کے درجنوں افراد گرفتار ہوتے ہیں ، پُرالم حالات میں بھی اِس ماں کی عظمت کو سلام جو دوسرے دوستوں کی حالت کے لئے فکرمند ہوتی ہے۔

ایک ایسا واقعہ جو کئی لوگوں کی گھروں میں اندھیرا کردیتا ہے، اور اُنکی زندگی سے خوشیاں چھین لیتی ہے ۔ حراست میں لئے کچھ افراد کی بعد میں لاشیں پھینک دی جاتی ہیں اور دیگر افراد تب سے اب تک لاپتہ رہتے ہیں ۔ مگر سننے اور پڑھنے والوں کے لئے یہ حیرت کی بات شاید نہ ہوگی چونکہ اب یہ واقعات معمول بن چکی ہیں ۔ ظالم ریاست آئے دن ظلم ڈھاتا ہے کئی لوگوں کو جبری لاپتہ کرکے، کہیں تشدد کرکے، کہیں عام آبادی پر شیلنگ تو کبھی گھروں میں لوٹ مار و خواتین کو حراساں کرکے ۔ وہ اپنی تمام حربے استعمال میں لاچکی ہے اور ہر طرح سے بلوچ نوجوان اور ماؤں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا رہا ہےـ

لیکن ہربار اُسے شکست کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ آج شہید نعیم جان کی ماں سمیت پوری بلوچ قوم کی مائیں شعور رکھتی ہیں اور بخوشی اپنی اولادوں کو محاذ پر بھیج کر وطن کے لئے لڑنے کا حکم دیتی ہیں، لامحالہ بلوچ ماؤں کی یہ عظمت و دلیری بلوچ تاریخ میں ایک اہم اور مرکزی کردار ہے جو بلوچ تحریک کی مستحکم اور اُسکی تقویت کا موجب بنی ہے۔ ایسے ہزاروں واقعات بلوچ تاریخ میں قلم بند ہیں جہاں دشمن نے ظلم کی انتہا کردی مگر پھر بھی بلوچ تحریک اور نوجوانوں کے جذبے کو کم نہ کرسکی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔