بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ہر سال کی طرح ستائیس مارچ کو یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے، بلوچستان میں پارٹی کے تمام زون آگاہی ریفرنسز کا انعقاد کریں گے اور بین الاقوامی سطح پر جرمنی، برطانیہ، ہالینڈ، یونان، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا میں احتجاجی مظاہرہ اور ریفرنس پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ 27 مارچ 1948ء بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس دن ایک نوزائیدہ ریاست ”پاکستان“ نے بلوچوں کی ہزارہا سالہ تاریخی سرزمین پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کرکے بلوچستان کو غلام اور اپنی ایک کالونی بنانے میں کامیاب ہوا۔اسی دن سے بلوچ قومی شناخت، تہذیب و ثقافت اور گرانقدر قومی اقدار ایک ایسے ملک کے توسیعی عزائم کا بھینٹ چڑھ گئے جو تاریخ و تہذیب سے محروم محض مغربی آقاؤ ں کے مفادات کی چوکیداری کے لئے وجود میں لایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا 27 مارچ نے بلوچ قومی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور وطن پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔اسی دن کو ہم اپنی آزادی سے محروم اورغلامی کے تذلیل آمیززندگی گزارنے پر مجبورکئے گئے۔ زندہ قومیں قومی اہمیت کے حامل دنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں پھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔ ان کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ لہٰذا 27 مارچ کے تاریخی حقائق کو نوجوان نسل تک پہنچانا اور مہذب دنیا کے سامنے عیاں کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ستائیس مارچ 1948 کو پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرکے ہماری تاریخی سرزمین کو اپنی کالونی بنالی مگر بلوچ قوم نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ پہلے ہی دن اس کے خلاف جد و جہد کا آغاز کیا۔ یہ تحریک مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آج بھی آب و تاب کے سا تھ آزادی کے روشن منزل کی جانب گامزن ہے۔ آزادی کے اس سفر میں بلوچ قوم نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ اپنی قومی آزادی کے حصول تک جاری رہے گا۔
ترجمان نے کہا کہ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد کو کچلنے اور بلوچ قوم کو دائمی غلام بنانے کے لئے دشمن قابض ریاست بلوچ سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں، پروفیسرز، ڈاکٹر، انجینئرز، ادیب، وکلاء سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ہزاروں بلوچ فرزند شہید اور ہزاروں پاکستانی فوج کی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں۔ آج ہمیں نسل کشی کا سامنا ہے۔ یہ سلسلہ قبضے کے دن سے مختلف صورتوں میں جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم اپنی حریت پسندی، بہادری، مہمان نوازی، ایفائے عہد، سیکولر اور مذہبی رواداری جیسے اقدار اور اوصاف کیلئے جانا جاتا ہے۔ بلوچ قوم اپنے جذبہ حریت پسندی کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ بیرونی قبضہ گیروں اور توسیع پسندوں کے خلاف مزاحمت کرتا رہا ہے۔ سکندراعظم کی لشکر، ایرانی بادشاہوں کی افواج، عرب، منگول اور سنٹرل ایشیائی ترک مہم جوؤں کے خلاف بلوچ قوم کے مزاحمت کے واقعات ہماری قومی تاریخ کا قابل فخر اور شاندار باب ہیں۔ اسی وجہ سے بلوچستان کبھی بھی بیرونی بالادست قبضہ گیر کیلئے تر نوالہ نہیں رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی فوج نے میجر ولشائر کی سربراہی میں 13 نومبر 1839کو بلوچستان کے دارالحکومت قلات پر حملہ کیا لیکن بلوچستان کے حکمران میر محراب خان نے برطانوی فوج کے طاقت کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کے بجائے مزاحمت کا باوقار راستہ اپنایا اور شہید ہوگئے۔ برطانیہ کی تما م حربوں کے باوجود بلوچستان 27 مارچ 1948ء تک اپنا وجود اور اقتداراعلیٰ بچانے میں کامیاب رہا۔لیکن برطانوی سازشوں سے ہندوستان کی تقسیم کا راہ ہموار ہوگیا۔ انہیں اس خطے میں ایک کٹھ پتلی ریاست کی ضرورت تھی تاکہ مستقبل میں ان کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو۔ اس خطے میں انہیں جناح اور مسلم لیگ کی صورت میں وہ مہرے مل گئے تھے جن کا استعمال نہایت آسان اور کارگر ثابت ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ کی سازشوں سے پاکستان نے بلوچ وطن پر قبضہ کیا۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ 4 اگست 1947 کو ہندوستانی دارلحکومت دہلی میں بلوچ حاکم اور وائسرائے ہند کی صدارت میں بلوچ حاکم، مسلم لیگی قیادت مسٹر محمد علی جناح، لیاقت علی خان کا ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں بلوچستان (ریاست قلات) کی آزادی اور برٹش بلوچستان کے بلوچ علاقوں کی واپسی کے معاملات زیر بحث لائے گئے اوربلوچستان کو ہندوستانی ریاستوں سے الگ ایک آزاد ملک تسلیم کرلی۔
بی این ایم ترجمان نے کہا 11اگست 1947ء کو بلوچستان کے حکمران خان قلات میر احمد یار خان نے ریاست قلات (بلوچستان) کی آزادی کا اعلان کیا۔ اس کی خبر آل انڈیا ریڈیو دہلی نے نشر کی اور دی نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی 12اگست 1947کی اشاعت میں قلات کی آزادی کے خبرکو شائع کیا۔ بلوچستان کی اعلان آزادی کے چار روز بعد 15اگست 1947کو برطانیہ نے بھارت اور پاکستان کے نام سے برصغیر ہند میں دو ریاستیں قائم کی۔ خان قلات نے اصلاحات نافذ کرکے برطانیہ کے طرز پر ملک میں دیوان عام اور دیوان خاص پر مشتمل دو ایوانی پارلیمنٹ بنایا۔ اسی دوران پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح برطانیہ کی پس پردہ شہہ پر ریاست قلات کو پاکستان میں شامل کرنے پر زور دینے لگا۔ اس صورتحال پر غور و خوض کے لئے ریاست قلات کی دیوان عام کا پہلا اجلاس 12سے 15 دسمبر 1947ء کو ڈھاڈر میں منعقد ہوا۔ ایوان نے اتفاق رائے سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز کو مسترد کیا۔ 4 جنوری 1948 کو ڈھاڈر میں ہی دیوان خاص نے بھی اپنے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز کو رد کردیا۔ 27 فروری 1948 کو اپنے دوسرے اجلاس میں بھی قلات کی پارلیمان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز کو قبول نہیں کیا۔
ترجمان نے کہا کہ ایسی صورتحال پیدا ہونے کے بعد 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے بلوچستان پر فوج کشی کرکے قبضہ کرلیا۔ بلوچ قوم نے پاکستان کی اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور وہ مزاحمت آج ایک شاندار قومی تحریک کی صورت میں جاری ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ بلوچ قوم ہر سال ستائیس مارچ کو یوم سیاہ مناتی ہے کیونکہ اسی دن پاکستانی افواج نے یلغار کرکے بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے برخلاف آزاد اور خود مختار بلوچستان پر 1948 میں قبضہ کیا۔ پاکستان کی کالونی بن کر ہم اپنی شناخت سے محروم ہوگئے۔ ہم سے نہ صرف ہماری سرزمین چھن گئی بلکہ پاکستان نے قبضہ کرتے ہی مظالم اورنسل کشی کاسلسلہ شروع کیا۔ بلوچ قومی نسل کشی ماضی میں چار ادوار سے گزرچکا ہے۔ اکیس ویں صدی کے آغاز کے ساتھ پانچویں دور شروع ہوا۔ لیکن نسل کشی کا یہ دور ماضی کے مقابلے میں نہایت شدید اور طویل ہے۔ ہزاروں بلوچ قتل، ہزاروں زندانوں میں قید ہیں۔ لاکھوں دربد اور ہجرت پر مجبورکئے گئے ہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں بلوچ قوم بھی اپنی آزادی کے لئے زیادہ قوت و توانائی کے ساتھ برسرپیکار ہے جو سرزمین کی آزادی کے لئے بلوچ کی عشق اور جذبہ قربانی کی واضح علامت ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ 27 مارچ کو سوشل میڈیا پر #27MarchBlackDay کا ہیش ٹیگ استعمال کرکے ایک آن لائن مہم چلائی جائے گی۔ تمام آزادی پسند اور انسان دوست سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ وہ اس کمپئین میں بھرپور حصہ لیں
–