بلوچستان کے طلباء کو پرامن احتجاج کا بھی حق نہیں دیا جارہا – بی ایس اے سی

102

‎بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں آج پولیس کی طرف سے پرامن طلباء کے احتجاج پر دھاوا بولنے اور طلبہ کی گرفتاری پر کہا کہ آج پولیس کی طرف سے طلبہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے یہ بلوچ طلبہ کے خلاف تشدد کے سلسلے کا حصہ ہے جو طلبہ کے خلاف پیچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ اینڈ سائنسز کے طلبہ اور ملازمین پیچھلے دو مہینوں سے اپنے جائز مطالبات کیلئے پرامن طور پر سراپا احتجاج ہیں لیکن مسئلے کو حل کرنے کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ اور وی سی نے نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج پرامن طور پر سراپا احتجاج طلباء و ملازمین کو پولیس کے ہاتھوں جبراً گرفتار کرایا ہے جس کی تنظیم سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

‎ترجمان نے کہا کہ کل صوبائی گورنمنٹ کے نمائندوں نے احتجاج میں بیٹھے ملازمین اور طلبہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگلے سیشن میں ہم اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے جبکہ حکومت مسئلے کو جلد از جلد حل کرے گی لیکن آج پولیس کی طرف سے پرامن احتجاج میں بیٹھے طلبہ اور ملازمین پر تشدد جبکہ خواتین کے ساتھ بدسلوکی حکومت کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے جبکہ اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ حکومت مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

‎ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں طلبہ اور ملازمین پر حالیہ تشدد اور گرفتاریوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج طلباء پر تشدد اس بات کا غماز ہے کہ بلوچستان کے طلباء کو پرامن احتجاج کا بھی حق نہیں ہے۔ اس پورے مسئلے پر صوبائی حکومت کا رویہ غیرمنصفانہ رہا ہے اور ہم ایک مرتبہ پھر حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں جبکہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے گورنر سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اختیارات واپس لیکر بلوچستان کے طلبہ کا مسائل حل کریں۔ ہم صوبائی حکومت کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسئلے کو فوری طور پر حل نہیں کیا گیا تو ہم اس پر سخت احتجاجی لائحہ عمل مرتب کریں گے۔