بلوچستان اور نوآبادیات – شاہمیر الطاف

384

بلوچستان اور نوآبادیات

تحریر: شاہمیر الطاف

دی بلوچستان پوسٹ

بیسویں صدی میں جب دنیا کے زیادہ تر حصے میں ایک ترقی کی لہر پھیل چکی تھی، بہت سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھے. بہت سے قوموں نے اپنی جدوجہد سے غلامانہ نظام، حکمران طبقے اور نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی .

آج بھی بہت سے دوسرے اقوام کی طرح بلوچ بھی نوآبادیاتی نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں. نوآبادیاتی نظام کے خلاف جد وجہد کرنا ہر قوم پر لازم ہے. نوآباد کار، قوم اور ان کے علاقوں کو اپاہج بنا دیتی ہے. ان کی ہر خوشی چھین لیتی ہے. ان کے حق سے انہیں محروم اور لوٹ ماری سے معیشت کو تباہ کرتی ہے۔

جس طرح فینن کہتا ہے کہ نوآبادیاتی دنیا دو علاقوں میں بٹی ہوئی دنیا ہے.انکی حد بندی ان کی سرحدیں فوجی چھاونیوں اور پولیس چوکیوں کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے. نوآبادیات میں پولیس اور سپاہی اور فوج سرکاری طور پر متعین ہوتے ہیں.

جب نوآباد کار کا سرمایہ دار یہ دیکھ لیتا ہے کہ اب وہ نوآبادی پر اپنا اقرار قائم نہیں رکھ سکتا تو وہ عقب سے حملہ کرنے کا سوچتا ہے اور تہذیب اقرار اور مشینی ترقی وغیرہ کی بات شروع ہوتی ہے. مقامی باشندوں کی بڑی اکثریت ان مسائل سے بالکل غافل ہوتی ہے.

انگریز سامراج نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بہت لوٹ ماری کی، یہاں کے لوگوں پر طرح طرح کے ظلم کیئے. معیشت کو تباہ کیاگیا. لوگوں کو مجبور کرکے اپنے مفادات اپنے سامراجی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے ان سے دن رات کام لیاگیا. ان سے ٹیکس ان کی آمدنی سے زیادہ وصول کرتے تھے۔ ان کو اپنا خبری بناکر ان کے اپنے ہی لوگوں کو مارنے کے لئے ان کا سہارہ لیاگیا۔

سامراج کی اجازت کے بغیر وہاں کے لوگوں کو کسی چیز کی اجازت نہیں تھی. ان کو آپس میں لڑانے جیسے طرح طرح کی سازشیں کرواتے رہے.

وہ مذہب اور قوم کے نام پر تقسیم کرکے حکمرانی کرتے آرہے تھے. دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کو واپس جانا پڑا تو وہ ہندوستان سے اپنی لوٹ ماری کرچکے تھے. یہاں ایک نام نہاد آزادی کا اعلان کرکےاپنے طریقے سے ہندو اور مسلمان کو الگ کرکے اپنے ہی حامی لوگوں کو ان کا سربراہ بنادیاگیا. یہاں کی حکمرانی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو سونپی گئی.

بلوچستان میں انگریز اور سرداروں کے خلاف سیاسی عمل جاری تھا. پاکستان بننے کے بعد بلوچستان کی آزادی کو ختم کرکے پاکستان کے ساتھ ملایاگیا. سرداروں اور نوابوں کی نزدیکی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی، وہ اپنی سرداری نظام کو چلانے میں ان کا سہارہ لیتے تھے.

بلوچ قوم کے نوجوان اس آمرانہ نظام کے خلاف شعوری سیاسی طریقے سے جد و جہد کرتے آرہے ہیں. دس پندرہ سالوں سے مفاد پرست گروہ قوم پرستی اور نظریاتی سیاست کا خاتمہ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں. لوگوں کو اجتماعی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہیں.

قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والے دراصل کچھ آمرانہ ذہنیت کے لوگوں کی حکمرانی خاندانوں تک چلانا چاہتے ہیں. بلوچستان کے ساحل وسائل کے بدلے بھیک کی طرح کچھ پیکجزز کا اعلان کیا گیا، طلباء کو ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں سے مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا گیا۔.

آج بھی یونیورسٹیوں کے اندر طلباء کو یہ احساس دیا جاتا ہے کہ ہم آپ لوگوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں، بلوچستان سمیت ملک کے باقی تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں لے کر اپنے علاقوں میں واپس پہنچ رہے ہیں.

ان سے قوم کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ بننے کے بعد معاشرے کے اندر سیاسی طریقوں سے شعور پیدا کریں گے، سیاست معاشرے میں مفاد پرستی اور خانہ جنگی سے بچنے کے لیئے قوم پرستی کا نظریہ پیدا کریں گے.

ان کو کیا پتہ ہمارے نوجوان زیادہ تر تعلیمی اداروں کے اندر سیاست کو فضول سمجھتے ہیں. انہوں نے خود سیاسی تربیت حاصل نہ کی تعلیمی اداروں میں سیاست کو فضول سمجھتے تھے. کبھی یہ نا سوچا کے ہمیں اپنے قوم کو شعور یافتہ بنانے کے لئے کام کرنا ہوگا. نیشنل اور انٹرنیشنل حالات کا اپنے خطے میں اثر انداز ہونے پر کس طرح لوگوں کو پہلے تیار کرنا ہوگا تاکہ ہم پر دوسروں کی جنگ مصلحت نہ ہو. ڈالری جہاد جیسے جنگ میں ہمارے لوگ استعمال نہ ہوں.

اس ملک کی تعلیمی نظام میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے کامیاب انسان بنو، یہ سیاست کہ چکر سے دور رہو. یہ نیشنلزم , سوشلزم, کمیونزم یہ سارے ازم صرف سیاسیات کے کتابوں کہ زینت ہیں، یہاں ان کی عملی ضرورت نہیں. ظلم کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرو کیونکہ وہ دوسروں کے ساتھ ہورہا ہے. ان جیسے مسائل سے آپ کو دور ہونا ہے آپ صرف کامیابی کی سیڑھیاں چھڑتے رہو، غیر تعلیم یافتہ غیر شعوری لوگوں سے دور جاکر ایک بڑے شہر میں اپنی زندگی گزارو۔ بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات بنا کر ان کی طرح زندگی بسر کرو. سرکاری مشینری کو چلانے کے لئے ایک اچھی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے بعد ملک کے جاگیردار سرمایہ دار طبقے سے تعلقات بنا لو.

اپنے بچوں کی زندگی سنوارنے کے لئے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے انہیں تعلیم حاصل کروا کر کامیاب انسان بنا لو تاکہ وہ سرکاری ملازمت حاصل کرکے اچھی کرپشن کر سکیں . یہ تعلیمی ادارے ہمیں یہی سکھا سکتے ہیں کیونکہ پنجاب اور بلوچستان کے حکمران طبقے کو کیا پتا کہ غربت ,بھوک ,انسانیت کیا ہوتی ہے. بے گھر ہونا پیاروں کی جدائی کیا ہوتی ہے.

غریب طبقے سے نکلنے والے تعلیم یافتہ کو ان کا احساس لازمی ہوگا، ہم وہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں جس سے ہم مظلوم طبقات پر اور ظلم کریں .

جس قوم کے نام سے مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، اس قوم کی خدمت ان کو سیاسی شعوری بنیاد پر تیار کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے. ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے قوم دوستوں کو ایک پلیٹ فارم میں یکجا کر کے خانہ جنگی سے بچنے کے لیے کوشش کرنی ہوگی. نظریات کی سیاست کو بحال کرنا ہوگا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔