الزام
تحریر: میرین زہری
دی بلوچستان پوسٹ
سقراط پر دو الزام تھے، ایک یہ کہ وہ اپنے دور کے دیوتاؤں کا قائل نہیں تھا، دوسرا یہ کہ نوجوان نسل کے اخلاق کو بگاڑ رہا تھا۔ یہی الزام ان کی شہادت کا باعث بنا۔ جیوری نے اپنا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر محفوظ کر لیا اور ایتھنز کے دستور کے مطابق سقراط کو رحم کے اپیل کا حق دیا، جس کو سقراط نے مسترد کردیا، اگر سقراط ملک بدری چاہتا تو باآسانی حاصل کر سکتا تھا۔ ان پر اخلاق بگاڑنے کا جو الزام عائد کیا گیا اس کی سچائی تب ثابت ہو جاتی ہے، جب اس کے شاگرد نے اسے قید سے خلاصی کے انتظام پر قائل کرنے کی کوشش کی تو سقراط نے اخلاق ہی کی دلیل سے اپنے شاگرد کو یہ کہہ کر قائل کر لیا کہ زندگی بھر میں اعلیٰ اخلاق کا جو درس دیتا رہا، اب قانون توڑ کر اس کی بدترین مثال کس طرح قائم کرلوں؟ اگر میں اپنے شہر اتھینز میں سچ سے بھاگ گیا تو کسی دوسرے شہر میں کیسے سچ بولوں گا اور خاموش میں رہ نہیں سکتا، مھجے میرے سچ کیلئے قربان ہونے دو۔
پتھر تو نہیں ھوں کہ لب اپنے نہ کھولوں
گر منہ میں زباں ہے تو بتا کیسے نہ بولوں
مہنگا ہے بھرے شہر میں انصاف کا سودا
بتا کب تک میں اسے سچ کے ترازو میں تولوں
اسی طرح جہاں ہم رہتے ہیں، جہاں سے ہمارے درد، غم، پیار و محبت کا رشتہ ہے، وہاں ہر طرف نا انصافیاں، تشدد، ظلم ہوتا رہا ہے، اسکے باجود یا تو ہم سے کچھ نے انکھیں موند لیئے جو بولنا جانتے تھے وہ سقراط کے طرح زہر تو نہیں پی سکے پر موسیٰ کی طرح اٹھالئے گئے، سالوں زندانوں کے نظر ہوئے پھر کسی کی لاش ملی، کوئی آیا تو نیم ہوش کے ساتھ اور جو بچ گئے وہ خوف یا لالچ سے ظالم کے ساتھی ہوگئے-
جس ریاست میں حق اور سچ کے لیے آواز اٹھانے والوں اور انسانی حقوق کے لیے لڑنے والوں پر اینٹی سٹیٹ ایکٹیوٹیز کے الزامات عائد کر کے ان پہ پابندیاں لگا دی جائیں تو سمجھ جاؤ کے وہ ریاست دہشت گرد ہے، وہ ریاست قاتل ہے، وہ ریاست مجرموں کا محافظ ہے، وہ ریاست لٹیروں کے مفادات کے تحفظ کے لیئے بنی ہے
کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، ریاست کی مہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہری کو زندگی کی وہ ہر سہولیات، انصاف کے ساتھ فراہم کرے جو اسکا حق ہے لیکن یہاں ریاست ماں نہی نیولا بنا ہوا ہے اور جنم دینے والے ماؤں کو روڈوں پر رلا رہا ہے اور ایسے ہزاروں مائیں اس جنم دینے والے ماں پر قربان جس نے ہر حالات میں اپنے بچے کو پال پوس کر اس دنیاء کے برابر لا کھڑا کردیا اور ایک انٹر پاس فوجی اسے اٹھا کر سالوں اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے، ایک دانا آدمی نے کہا تھا سچ کو کروڑ لوگ بھی جھوٹ کہے پر وہ رہتا سچ ہی ہے-
ان سب کے باجود، ایسے لوگ، ایسے پاگل، ایسے دیوانے، جو آگ اور خون کے باوجود حق اور سچ سے پیچھے نہیں ہٹتے، انہیں بھی معلوم ہے وہ کسی دن ایسے ہی کسی نا کردہ گناہ کے الزام میں اٹھالئے جائینگے، جیسے موسیٰ آسمان پر اٹھا لیا گیا، کسی دن وہ بھی ایک کالی کوٹھڑی کے نظر ہونگے، انگلیوں سے ناخن نکالی جائیں گی، مائیں سڑکوں پر روتی پھرینگے لیکن پھر بھی وہ زبان رکھتے ہیں، وہ ظلم اور جبر کے انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتے ہیں، یقیناً انہی کو تاریخ یاد کرتی ہے اور کریگی بھی-
صحرا صحرا غم کے بگولے بستی بستی درد کی آگ
جینے کا ماحول نہیں ہے لیکن پھر بھی جیتے ہیں
ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے
یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن پیاس لگی ہے پیتے ہیں
کسی نے بہت ہی تلخ حقیقت کہی ہے، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کی پسماندہ ذہانت کی قیمت اُس قوم کے سب اعلٰی دماغوں کو چکانا پڑتی ہے، جب لوگ ظلم اور جبر پر خاموش ہوتے ہیں انہیں نا صحیح انکے اولاد، انکے اولادوں کے اولاد، کسی نا کسی کو تمھاری خاموشی کی قیمت چکانی پڑتی ہے، کل والوں کی خاموشی آج تم چکا رہے ہو، تمہاری خاموشی تمھارے کل کو چکانی پڑیگی-
دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔