آٹھارہ فروری شہدائے توتک اور عظیم ماں – بیورغ بلوچ

662

آٹھارہ فروری شہدائے توتک اور عظیم ماں

تحریر: بیورغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میرا گل زمین بلوچستان بھی عجیب بنجر دھرتی ہے، اس پر ظلم تو بہت ہوئے ہیں اور موجودہ حالات میں یہ ظلم شدت کی انتہاء تک پہنچ چکی ہے لیکن اس زمین نے ہمیشہ شیردل اور مخلص سپُوت پیدا کیئے۔ ہزاروں میلوں پر مشتمل بلوچ زمین اور اس کے یہ بہادر سپوُت کسی گلستان کی پھولوں کی طرع رنگ برنگے ہیں، یہاں بات ہوگی تو بہادری کی، مخلصی کی، قربانی کی، اور عظیم ماوں کی، جواپنی مثال آپ ہیں۔ ہاں! جناب میں آج اپنے اس تحریر میں ایک ایسی ماں کا ذکر کروں گا، جو صرف شہید ماما نعیم جان کی ماں نہیں بلکہ یہ شیرزال عظیم ہستی ہراُس بلوچ جہدکار کے لیئے ایک راہ بنی جو آج فخر سے دشمن کے ساتھ ایک محاذ پر لڑ رہے ہیں۔

میں اپنے اس تحریر کی مدد سے آپ حضرات کو متوجہ کرنا چاہوں گا، اس گل زمین پر موجود چھوٹے سے قبائلی شہر وادی توتک کی طرف، جہاں اس بے رحم فروری میں اس ظالم ریاست کے درندہ صفت فوج نے فروری کے اسی ماہ میں، تاریک رات، سرد ہواؤں اور اس کے ساتھ موسلا دار بارش کا فائدہ اٹھا کر گل زمین کے ان رکھوالوں پر دھاوا بول دیا۔ یہ وہی دھرتی ہے جس سے شہید ماما نعیم جان، شہید یحییٰ بلوچ، شہید مقصود جان اور ان کے ساتھ درجنوں ساتھی بشمول شہید نعیم جان کے 80 سالہ ضعیف والد صاحب اور بڑے بھائی ڈاکٹر طاہر کو اس زرخیز زمین سے جدا کردیا جاتا ہے۔

شہید نعیم جان کےساتھ لفظ ماما لکھ کر اس کی یادوں میں کچھ دیر اس حسین دور کو یاد کرتا رہا۔ جس وقت یہ عظیم ہستی ہمارے ساتھ ہوا کرتا تھا اور پیار سے ہم اس کو ماما کہتے تھے۔ بلوچی روایت میں اگر کسی سے محبت ہو یا اس کو عزت بخشا جائے تو اکثر اس کے دوست اس کو ماما کہہ کر پکارتے ہیں۔

اس کے علاوہ وادی توتک سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک عظیم فریڈم فائیٹر اور آجوئی کا چراغ، جس نے جان کا نذرانہ پیش کرکے پورے خطے میں ایک مثال قائم کرکے وطن کی خاطر امر ہو گیا، آپ نے ٹھیک سمجھا وہ شخصیت اور کوئی نہیں شہید امیرالملک ہے، جس نے مادرِوطن کے لیے جان دے کر پورے بلوچستان کے باشندوں کے دل میں ایک نشان سا چھوڑ دیا۔ ہاں یہ وہی امیر ہے جس کی بہادری اور مخلصی کی وجہ سے آج ہر پیدا ہونے والے بچے کا نام فخر سے امیرالملک رکھا جاتا ہے۔ شہید کے اپنے نسل کے لیئے ایک روشن خیال سبق بنے اور اس میں پوری طرح سے بلوچ شہید چاہے وہ سنگت امیر کی صورت میں ہو یا دل جان و دودا یا بلوچستان کا گواڑخ ریحان جان ہو-

خیر جناب یہ تو تھے، اس خوبصورت وادی توتک کے شہید جنہوں نے اپنے قیمتی جانوں کا قربانی محض صرف اس لیے دیا کہ ان کے دوست محفوظ رہیں اور دوسرا وہی جو ہر شہید اپنے خون کا نذرانہ دے کر مادر وطن کے لیئے اس آجوئی کے راستے میں ہر حال میں قربانی دیتا ہے، تا کہ سنگتوں کا منزل آسان ہو اور جس کی مثال ہر گلی کوچے میں اکثر جوان ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہیں۔

اس واقعے میں ایک عظیم کردار ہے، یقیناً جس کی نشاندہی میں نے اپنے اس تحریر کے شروع میں ہی کی تھی، جس کا تعارف لکھتے لکھتے میری آنکھیں آبدیدہ ہوگئے۔

پتہ نہیں مجھ جیسا نالائق بیٹا اس عظیم ہستی کی عظمت کو بیان کرسکتا ہے یا نہیں، خیر نالائق ہی صحیح پر کوشش کروں گا کے اس ماں کی شان میں کچھ لکھ سکوں۔

یہ المناک واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ چالاک دشمن نے پوری کوشش کی کہ کسی ایسے وقت چھاپہ لگایا جائے جب سب خوابِ خرگوش میں مبتلا ہوں اور میں ان پر حملہ کروں اور اس نے ٹھیک ایسا ہی کیا، صبح صادق پانچ بج کر تیس منٹ یا چھ بجے اس ظالم درندہ سامراج نے حملہ کردیا۔

جیسے ہی دشمن کی موجودگی کا اندازہ شہدائے توتک نعیم جان اور اس کے دوست یحییٰ کو ہوا تو ان لوگوں نے ہر صورت میں مقابلہ کرنے کا سوچا، جو ایک بلوچ سرمچار کا سرمایہ ہے تاکہ دوسرے دوست جو کہ (وتاخ) یعنی مہمان خانے میں موجود تھے انہیں ہر حال میں فوج کے گھیرے سے محفوظ نکالا جائے۔ جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے اور دشمن سے لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کی اور ساتھ دشمن کے کئی سپاہی جہنم واصل کردیئے۔

گھر میں موجود یہ شیرزال ماں جیسے ہی گولیوں کی آواز سنتی ہے تو باہر موجود جنگ میں اپنے لختِ جگر لاڈلے بیٹے کی طرف لپکتی ہے، پر رستے میں ہی اس کا دوسرا بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ انہیں ملتا ہے۔

بجائے چیخنے چلانے کے حوصلوں سے مضبوط ماں فوراً اپنے بیٹے کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ ایک محفوظ جگہ پر جانے کو کہتی ہے، ہاں اس عظیم ہستی کو یہ بھی بلآخر پتا چلتی ہے کہ اس کا لاڈلا بیٹا وطن کی محبت میں امر ہوگیا، جس کا خون سے لت پت لاش اس کے سامنے پڑی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا ہم سفر ساتھی، اس کا شوہر اور اس کے بڑھاپے کا کُمک اس کا بڑا بیٹا سامرج اغوا کر چکا تھا لیکن اس کے باوجود یہ شیرزال حوصلہ مند بوڑھی ماں فون کر کے اپنے بیٹے کو ان کے دوستوں کے بارے میں پوچھتی ہے کے (کنا مار سنگتاک نے سلامت او)۔

بھائی کوئی اس ماں کو یہ بتا دے کہ اس کے بیٹے کی اب تک لاش پڑی ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے ہمت کرکے بیٹے کو فون کرکے اس کے ساتھیوں کا خیریت دریافت کیا، وہ ساتھی جن کو یہ ماں جانتی تک بھی نہیں۔

اے بلوچ ماں تیری عظمت کو سلام تو کبھی ریحان کی ماں کی صورت میں آتی ہو، تو کبھی دودا کی، تو کبھی نعیم جان کی، مجھ جیسا کمزور نالائق آپ کی عظمت کیا بیان کر سکے گا۔ لیکن کوشش کرکے دنیا بالخصوص بلوچ ماوں کو آپ کا پیغام ضرور دوں گا کہ ہر ماں آپ کی طرح سوچے اور اس سرزمین بلوچستان کو اس بدمعاش اور درندہ صفت ریاست سے نجات دلانے کے لیے اپنے لختِ جگروں کا راستہ نا روکیں، بلکہ ان کی ہمت بنیں، یہ بھی میں بہت اچھی طرح سے سمجھتا ہوں کہ یہ راستہ ماں اور اس کے بیٹے کے لیئے بہت ہی کٹھن ہے پر یہی راہِ نجات اور مزید غلامی سے ہزار گناہ مفید ہے۔ اے عظیم ماں تیری عظمت کو سلام۔

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ ماں ہو۔ وہ ماں جو اپنے بچےکو نو ماہ اپنے جگر سے لگائے جنتی ہے، ہاں آپ وہ ماں ہو جو اپنے بچے پر چھوٹا سا تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن جب بات آگئی گلزمین پر تو یہ ماں بھی بھول جاتی ہے کہ میں نازک مزاج کمزور وہی ماں ہوں جو اپنے لختِ جگر پر چھوٹا سا آنچ تک آنے نہیں دیتی، یہ میں ہزاروں سال پرانی بات نہیں بلکہ یہ تو آپ اور میرے زمانے یعنی کچھ سال قبل کی بات ہے توتک آپریشن اور ان کا بہادر فرزند کوئی بےضمیر انسان ہی بھول سکتا ہے یا کوئی احمق۔ بلوچیت سے واقف اور باشعور افراد اس کو اچھے الفاظ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے سوائے اُن میر و سردار و بوٹ پالش پرستوں کے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔