ہم کس طرف جارہے ہیں؟ – سلمان حمل

747

ہم کس طرف جارہے ہیں؟

تحریر: سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

ہر عمل کے دوران یہ ضروری ہیکہ آپ اپنے عمل کے متعین کردہ راہوں کو تلاش کرلیں اور راستے کے موجود تضادات پر باریک بینی سے غور کرلیں اور ایک نتیجہ حاصل کرنے کے بعد خود سے سوال کریں اور جستجو کا آغاز کریں تو آپ کیلئے کچھ بہتر کرنا آسان ہوگا اور غلطیوں و کوتاہیوں کو نکال باہر کرنے کا موقع ملے گا۔ تو پھر ہم اپنے آپ سے کیا سوال کریں اور ہمارا عمل کیا ہے اس کے متعین کردہ راہ کونسے ہیں؟ تو یقیناً ہمارا عمل جنگ ہے اور جنگ کے متعین کردہ راہ میں خاکساری، عاجزی، سادگی، اور انقلابی صفات پر زندگی گزارنا ہے، روایات کے جمود کو توڑ کر سماج میں انقلاب برپا کرنا ہے۔ اور انقلاب کیلئے بغاوت لازمی ہے آپ کو باغی بننا ہوگا، فرسودہ سوچ، فرسودہ رواج اور فرسودہ نظام سے لڑنا ہوگا کچھ نیا کرکے دکھانا ہوگا جس سے آپ خود اور آپ کا سماج قبول کرلے۔

تو مختصراً آج ہم قومی جھد کے بابت ضرور سوچیں گے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی اتفاق کرے مگر جب میں سوچتا ہوں کہ میرا پہلا فیصلہ کیا تھا اور کیا سوچ کر میں اس عمل کا حصہ بنا تھا اور آج میں کہاں جارہا ہوں؟ تو بہت سے ایسے وسوسے اور خدشات مجھے گھیر لیتے ہیں جن کا اثر میرے قوم کے مستقبل پر پڑ رہا ہے۔

آپ فرض کریں آپ کا تعلق ایک قوم سے ہے اور آپکے قوم پر ایک غاصب اور زورآور قوت نے قبضہ کیا ہے۔ آپ کا وطن اور وطن میں موجود ہر شئے خطرے سے دوچار ہے تو آپ کیا کریں گے؟

جب آپ دیکھیں گے کہ قومی شناخت اور بقا خطرے سے دوچار ہے۔ اور آپ حقیقت میں خود کو ایک قوم دوست کہتے ہیں تو ہرگز آپ سے یہ برداشت نہیں ہوگا کہ آپ انفرادی طور پر کچھ سال زیادہ زندہ رہیں۔ شخصی زندگی کو آرام و آسودگی سے گزاریں یہ تب ممکن ہوتا ہے جب آپ تن من کے ساتھ کسی قومی جھد سے وابستہ ہوں۔ تو وہاں آپ فیصلہ لینے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونگے۔ چاہے وہ فیصلہ گھر بار چھوڑنے، معمول کی زندگی کو خیرباد کہنے کی کیوں نہ ہو، جب آپ سب کچھ چھوڑ کر بھی آتے ہو اور آپ خود کو ایک قومی محافظ سمجھ کر بھی انفرادی طور پر خواہشات کا غلام ہونگے آسودگی سے آپ کو لگاؤ ہوگا اور مشکلات سے آپ دور دور تک تعلق رکھنا نہیں چاہتے معمول کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت نہ قومی محافظ ہونگے اور نہ ہی قومی جھدکار و معمار۔

قومی جہدکار اور معمار بننے کا جو خاکہ ہم اپنے ذہن میں لے کر گھومتے ہیں، دراصل ہم خود کو تسلی دے رہے ہوتے ہیں کہ میں نے چار کتابیں ازبر کی ہیں چار اصلاحات کے استعمال سے واقف ہوں، دوچار سال کسی گوریلا کیمپ میں گذارے ہیں، ایک دو معرکے میں دشمن سے لڑا ہوں، خاندان کے چند افراد اغوا ہوئے ہیں یا ریاستی عقوبت خانوں میں شہید ہوگئے ہیں یا کسی ٹارگٹ کلنگ سے شہید کردیئے گئے ہیں تو لہٰذا میں ایک قومی جہدکار ہوں، معمار ہوں، محافظ ہوں تو آپ غلطی پر ہیں اور خود سے فریب کررہے ہیں۔

اگر آپ واقعی اپنے آپ کو ایک قومی جھدکار سمجھتے ہیں اور اس جھد کا وارث کہتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا۔ کہ آیا اس وقت جب میں جی رہا ہوں اس لمحے میں یا اس دورانیے میں بحیثیت قومی جھدکار واقعی میں اپنا فرض نبھا رہا ہوں؟ یا پھر وقت گزار رہا ہوں؟ خود کو اور خاندان سمیت پوری قوم کا دھوکہ دے رہا ہوں؟ کیا اس وقت قومی جھد کے جو تقاضے ہیں ان پر میں پورا اتر رہا ہوں؟ کیا میرے جو فیصلے ہیں وہ سردمہری و یہاں وہاں کے ٹائم پاسیوں سے ختم ہونے کے قریب تو نہیں پہنچے ہیں؟ اور وہ قومی ذمہ داری جو میں نے اٹھائے تھے اور جن ذمہ داریوں کو میں نبھانے نکلا تھا وہ آسودگی اور خواہشات کے زد میں آکر فراموش تو نہیں ہورہے؟

اگر آپ کا جواب نہیں ہے تو یہی سمجھ لو کہ آپ اب بھی اپنے کمزوریوں اور غلطیوں کو تسلیم نہیں کررہے ہیں جو مجموعی طور پر مجھ سے لے کر آپ تک ہوئے ہیں۔ اگر آپ ان کوتاہیوں اور غفلتوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں تو آپ سے یہی امید کی جائے کہ آپ کسی بھی بہتری کے عمل کا حصہ بننے نہیں جارہے ہیں۔ آپ اسی طرح اپنے کھینچے ہوئے لکیر پر چلنا چاہتے ہیں اور خود کو جھوٹا تسلی دے کر خوش رکھنا چاہتے ہیں۔

اگر آج مجموعی طور پر قومی تحریک کو لے کر ہم منڈیلا کے اس کوٹیشن کو سامنے رکھیں کہ “ظلم کے خلاف جنگ میں بسا اوقات مظلوموں کی پالیسیوں کا تعین ظالم کرتا ہے کیونکہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو وہاں آگ کا بدلہ آگ سے کیا جاتا ہے”۔ آیا آج ہم ذہنی طور پر آگ کا مقابلہ آگ سے کرنے کے لیئے ذہنی طور پر تیار ہیں؟ اگر ہاں تو پھر یہ ٹال مٹول یہ وقت کی پابندی نہیں کرنا، اپنے ذمہ داریوں سے دور بھاگنا، اہم قومی فریضے سے غافل ہوکر روایات سے جڑے رہنا چی معنی دارد؟ کیا آج ہم اس دوراہے پر کھڑے نہیں ہیں جہاں پیچھے سے اجتماعی موت ہمارا پیچھا نہیں کررہا اور آگے سے ہم خود کو ایک ایسے کھائی میں نہیں دھکیل رہے ہیں جہاں سے نکلنا ناممکن ہے؟

اگر آج بھی ہم نے نیچے سے لے کر اوپر تک، اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ایک کردار کو نہیں جھنجھوڑا، خود کو اور سامنے والے کو اس کے فرض اور ذمہ داریوں سے روشناس نہیں کروایا اور اپنے اپنے کام کے محور تک نہیں رکھا اور ایمانداری و سخت جانی سے کام یعنی قومی جنگ پر توجہ نہیں دیا روایات، آسودگی، اور خواہشات کی دلدل سے نہیں نکالا اور معمول کی زندگی کو قومی جنگ کے تقاضوں کے تابع نہیں کیا ٹال مٹول، آج اور کل سے کام لیا اور اس جنگ کے جو ایک مشین کی مانند ہے کے تمام پرزوں کو کار آمد نہیں بنایا اور ان سے کام نہیں لیا، صرف اور صرف چھوٹے موٹے مصروفیات کو قومی زمہ داری سمجھ کر اہم زمہ داریوں سے چشم پوشی کرکے خود کو بری الذمہ کیا تو پھر بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوگا اور کھونے کیلئے قومی شناخت سے بڑھ کر کوئی قیمتی شئے نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔