کمبر پہ بداں جور ءِ بات – عبدالخالق بلوچ

636

کمبر پہ بداں جور ءِ بات

تحریر : عبدالخالق بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں طلبہ سیاست شروع دن سے فعال و متحرک اور قوم پرستی کے گرد گھومتا رہا ہے اور جس وقت کوئٹہ میں حصول علم کا متلاشی تھا تو یہ بی ایس او کے تینوں دھڑوں کا سیاسی عروج اور بعد میں بی ایس او الائنس کے نام پر ایک ہوکر ایک کونسل سیشن تک محدود اتحاد بعد از کونسل سیشن دھڑے بندیوں کا سلسلہ شروع ہوئے، لیکن اس وقت کوئٹہ کے بڑے اور بیشتر تعلیمی ادارے طلبہ سیاسی تنظیموں کے گڑھ تھے۔

بی ایس او آزاد کا اپنا ایک سیاسی مقام ماس پارٹیوں کے زیردست سے بالا بلوچ طالب علموں کا سیاسی شعوری اور قومی انقلاب کا امید تھا ڈگری کالج کوئٹہ سمیت کوئٹہ بشمول بلوچستان کے دیگر تعلیمی ادارے طلبہ سیاست کے مرکز تھے جن میں بلوچستان یونیورسٹی ، بولان میڈیکل کالج اور ڈگری کالج سرفہرست تھے ان میں سے ڈگری کالج کی یہ خاصیت تھی کہ اس کے تین ہاسٹلز بلاکس الگ نام اور الگ الگ تنظیمی گروہوں میں منقسم تھے، نیو ہاسٹل ،اولڈ ہاسٹل اور فیڈرل ہاسٹل ، داخلہ لیتے وقت فیڈرل ہاسٹل میں ایک کمرہ دو اور دوستوں کے ساتھ الاٹ ہوا اور ہم کبھی کھبار باقی دوستوں کے ساتھ یہیں اپنا دیوان جما لیتے تھے جب کالج میں داخلہ لینے آئے تو جن لوگوں سے پہلی ملاقات اور متعارف ہوئے انہوں نے بلوچ ہونے کے ناطے کونسلنگ میں مدد کی داخلہ اور ہاسٹل کے کمرے کا الاٹمنٹ تک رہنمائی کی ، اور بعد میں حال و احوال ہوتا رہا اسی دوران کمبر چاکر بھی کوئٹہ آئے اور بی ایم سی انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگے ساتھ ساتھ بی ایس او کے پروگرامات ان کے دن کی لازمی جز ہوتے تھے جب بی ایم سی ٹیسٹ میں تھوڑے نمبروں سے رہ کر بیوٹمز میں داخلہ لیا وہاں ہاسٹل میں رہائش کا انتظام اس وقت غالباََ نہ تھا خوش قسمتی سے کمبر بھی ہمارے ساتھ ڈگری کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوئے جو اپنے نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ تنظیمی امور میں بھی کافی متحرک اور محنت اور لگن سے بھاگ دوڑ کرتے تھے ہم بھی روایتی انداز میں بی ایس او میں شامل تھے روایتی اس لئے کہ شیڈولڈ پروگرامات میں حصہ لینا الگ اور تنظیمی سرگرمیاں الگ جو تنظیم کو فعال اور متحرک بنائے ہم تنظیمی سرگرمیوں میں بہت سست اور کام اور کردار سے صفر تھے کمبر چاکر اور رضا جہانگیر دو ایسے نام تھے کہ شال میں بی ایس او آزاد کی تمام تر زمہ داریاں انہوں نے اپنے لیئے خود فرض کئے تھے صبح سویرے جب ہم سو رہے ہوتے تھے تو کمبر نیند سے بیدار ہوکر بیوٹمز جانے کی تیاری میں لگے رہتے تھے اور کلاسز سے فارغ ہوتے ہی شام اور رات دیر تک اپنے تنظیمی دوستوں کے ساتھ مصروف رہتے واپسی میں تاخیر اس کا معمول تھا قریبی رشتہ اور ایک ہی علاقے کے ہوتے ہوئے بھی علاقے کی نسبب ہم کوئٹہ میں زیادہ وقت ایک ساتھ رہے ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔

ایک دفعہ شہید کمبر کے والد شہید چاکر نے کہا کہ مجھے مولانا عبدالحق بلوچ نے کہا ہیکہ کمبر ایک گوہر نایاب ہے لیکن افسوس کہ آپ لوگ ابھی تک اس کو سمجھنے میں ناکام ہیں میں نے یہ بات کمبر اور دوسروں سے چھپایا اگر کمبر کو یہ معلوم ہوا تو وہ ہم سے اور زیادہ بغاوت کرئے گا، وہ نہ ہمارا  ہوگا اور نہ گھر کا اس نے بلوچ قومی آجوئی سیاست کو اپنے لئے سب کچھ مان لیا ہے جس نے کمبر کو چند لمحے کیلئے دیکھا ہوگا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں وہ اس کا ضرور گرویدہ ہوا ہے وہ سب سے الگ تھلگ لاغر بدن کے ساتھ حب الوطنی میں اتنا مگن تھا کہ وہ بلوچ قومی سیاست پر نقطہ چینی یا اختلاف پر کسی کا پرواہ نہیں کرتے تھے چاہئے کوئی پوری دن رات ان سے بحث و تکرار کرتا کہ یہ وقت ہے آپ کے پڑھنے کا یہ وقت ہے آپ کے اپنےذاتی مستقبل بنانے کا یہ وقت ہے آپ کے تعلیم مکمل کرنے اور بعد از نوکری حاصل کرنے کا یہ باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ ایک دفعہ کمبر کے والد شہید چاکر کوئٹہ آئے تھے اسلام آباد ہوٹل جب میں کمبر چاکر اور میرے ایک کزن شہید چاکر کے پاس اسلام آباد ہوٹل گئے تو شہید چاکر نے کمبر کے متعلق ہمیں بتانا شروع کیا اور کہا ہے کہ میں نے کمبر کو کئی بار کہا ہے اور سمجھایا کہ آپ پہلے پڑھو اپنا تعلیم مکمل کرو بعد میں سیاست کرنا ہے یا نوکری یہ آپ کی مرضی لیکن دوران تعلیم سیاست کرنا یہ بی ایس او می ایس او سے الگ رہنا کیونکہ جب سے ہم نے ہوش سنھبالا ہیکہ بی ایس او کی زندہ باد مردہ سیاست جاری ہے تنظیمی گروہ بندی بی ایس او سہب اور بی ایس او استار سے آگے نہیں گئی ہے خدارا اسے کو سمجھائیں تاکہ اپنے پڑھائے میں زیادہ توجہ دے اور سیاست کو پہلے یک طرفہ رکھیں کیونکہ آپ لوگوں کے ساتھ ہے اٹھنا بیٹھا آپ لوگوں کی باتین شاید مانتا ہے، میں دل میں خود پر ہنس رہا تھا کہ جو دوسروں کو تنظیمی امور اور پالیسی اور عالمی سیاسی امور پر لیکچر دیتا ہے وہ طلبہ سیاست کے ایک من وعن مہرہ ہے جو طلبہ سیاست اور بی ایس او کو اپنا  اول و آخر سمجھتا ہے جو مادر وطن پر ظلم و ستم اور اس کے تدارک متعلق لیکچر دیتا ہے بلوچستان کے طول و عرض میں دیگر ریاستی ناانصافی سیاسی ورکروں کی جبری گمشدگی پر دوسروں کو اپنے منطقی دلائل سے مثاکر کر چکا ہے وہ ہم لاعلموں سے کیسے یقین کر بیٹھے گا گوکہ ہم بزدلی سے ان کا ساتھ نہیں دیتے لیکن ہم اس کو روک بھی نہیں سکتے اور اب یہ ناممکن سی بات ہے اب جب اس کو رضا جہانگیر کی صورت میں ایک ہم دست ملا ہے کون ان کو جدا کر سکتا ہے جس کی دل و دماغ میں ایک ہی جنون ہو قوم کی لاچاری لاشعوری لاعلمی کو ختم کرنے عزم اپنے فطری خواب وطن کی آجوئی وطن کی مہر و محب جس کے لاغر جسم و بدن میں خون کی طرح پیوست ہو وہ نہ باتوں سے کنارہ کش ہوگا نہ ریاستی خوفِ و وحشت سے جھکنے کا سوچ لیکر خاموشی اختیار کریگا یہ الگ بات تھا کہ ریاست اس باہمت نوجوان لاغر بدن کمبر سے خوفزدہ ہوکر اسے اپنے ایٹمی طاقت کیلئے خطرہ سمجھ کر اس کو راستے سے ہٹانے کیلئے خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش پر کم عمری کے باوجود ٹارچر سیل قید و زندان کئی عرصہ بند کیا گیا لیکن ہر گزرتے وقت اس کو محکم و مضبوط کرتا گیا جب قید سے رہائی ملے تو گاؤں میں پکنک ماننے گئے ندی کے پانی میں ایک گھنٹہ رہے ہم نے کہا اب نکلو کہنے لگا جب بھی گھر میں گھسل کرتا ہوں میرے خیال میں زندان کے میل صاف نہیں ہوئے ہیں آج اس قدرتی نہر میں خود کو جیل کی میل سے مکمل صاف کرونگا شاید باقی میل اب نہ رہے رہائی کے فوراََ بعد پھر اپنے سیاسی سرگرمیوں میں مگن رہے اور اپنے ادھورے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور رہائی کے دن تنظیمی سرکلر میں جاکر اپنے دوستوں سے ملے ان کو ہمت اور شعوری طور پر متحرک کرنے پر لیکچر دینا شروع ہو گئے۔

کمبر کے ان سرگرمیوں کو دیکھ کر ریاستی ادارے ان کو اپنے لئے خطرے سمجھ کر دوسری بار ان کو اس کے گھر میں رات کی تاریکی میں اپنے کزن کے ساتھ اٹھا کر لے گئے اور چند عرصہ بعد اس کو اس کے دیگر ایک ساتھی الیاس نظر کے ساتھ بے دردی سے ٹارچل سیل میں ازیت دیکر شہید کیا جو ریاست اپنے لئے نفرت اور کمبر جیسے باہمت نوجوانوں کیلئے ہمدرد اور اسے باقی نوجوان کیلئے آئیڈیل ہونے کا شرف دیا تاریخ میں شاید شہید کمبر چاکر وہ واحد آئیڈئل رہنماء ہونگے جو طلبہ سیاست کی داغ بیل ڈالنے میں نوجوان کی ہمت کا سہارا بنا اور انہیں اپنے روشن مستقبل کو سنوارنے کا حل صرف وطن کی آجوئی اور غیروں کی غلامی سے چھٹکارا سے وابستہ قرار دیا آج اس کی یوم شہادت پر جدائی کا غم ضرور ہے لیکن دلوں میں زندہ شاید اس جیسے بہادر و باہمت نوجوان کم ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔