احتجاج میں شامل مرد، خواتین اور بچوں نے مشہور نیٹ فلکس سیریز ’منی ہیسٹ‘ کی طرز کے نقاب چہروں پر پہنے ہوئے تھے۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد سے لاپتہ ہونے والے سید آفتاب علی عرف نومی کی بیٹی سیدہ جبین زہرہ نے الزام عائد کیا ہے کہ چار سال پہلے سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکار ان کے گھر آئے اور ان کے والد کو اپنے ساتھ لے گئے۔
کراچی کے علاقے کلفٹن میں دو تلوار کے مقام پر ہفتے کی شام مبینہ طور پر جبری گمشدہ افراد کے لیے منعقدہ احتجاج میں شریک جبین نے مطالبہ کیا کہ ان کے والد کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’والد کی جبری گمشدگی کے بعد ہم گھر میں کسی کی سالگرہ، عید نہیں مناتے اور امید لگائے بیٹھے ہیں جب وہ واپس آئیں تب خوشی کے تہوار منائیں گے۔ ان کی جبری گمشدگی کے بعد ہم ان کے جیتے جی یتیموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔‘
احتجاج کے شرکا میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے جنھوں نے مشہور نیٹ فلکس سیریز ’منی ہیسٹ‘ کی طرز کے نقاب چہروں پر پہنے ہوئے تھے۔
ناظم آباد ٹاؤن کے نزدیک حسن کالونی سے دو اگست، 2015 کو جبری طور پر لاپتہ ہونے والے پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی اور تین کمسن بیٹیوں کے والد 27 سالہ نعمان علی کی بہن زرین ناہید بھی احتجاج میں شامل تھیں۔
زرین نے الزام لگایا کہ ’میرے بھائی کو حساس ادارے کے لوگ اٹھا کر لے گئے اور ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ان پر الزام کیا ہے یا انھوں نے آخر ایسا کیا جرم کیا جو انھیں غائب کردیا گیا۔‘
’اگر میرے بھائی پر کوئی الزام ہے تو انھیں عدالت میں پیش کرکے سزا دیں مگر اس طرح لمبے عرصے تک غائب رکھنے سے خاندان کی جو حالت ہے اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔‘
’میرے بھائی کے اٹھائے جانے کے بعد پانچ سالوں میں خاندان اجڑ گیا۔ ہم نے ہر جگہ احتجاج کیا مگر ہماری کوئی نہیں سنتا، کم سے کم ان کی خیریت کے بارے میں بتایا جائے۔‘
انہوں نے حکومت سے اپنے بھائی کا پتہ چلانے کی اپیل بھی کی۔
احتجاج میں شریک معروف سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے الزام لگایا کہ ملک میں اب ایسا کوئی طبقہ نہیں بچا جنھیں لاپتہ نہ کیا گیا ہو۔ ’پہلے لسانی بنیادوں پر سندھیوں، بلوچوں، پشتوںوں اور گلگت کے لوگوں کو اٹھایا گیا اور انھیں ملک دشمن، را کے ایجنٹ اور طالبان کے ساتھی قرار دیا گیا۔‘
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: طالب علموں کی جبری گمشدگیوں کیخلاف اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل الائنس کا احتجاج
جبران ناصر کا کہنا تھا: ’کچھ ماہ قبل جب لاپتہ افراد کے خاندانوں نے ایوان صدر کے سامنے پرامن احتجاج کیا تو پولیس نے کہا کہ وہ دہشت گرد ہیں لیکن بعد میں وہ لوگ جو سالوں سے غائب تھے ان کے اچانک نام سامنے آگئے اور ان پر ایف آئی آر کاٹ کر عدالتوں میں پیش کیا گیا جس سے ریاست کا جھوٹ سامنے آ گیا۔‘
احتجاج میں شریک ایک اور سماجی کارکن خالد راؤ نے کہا کہ کراچی میں پچھلے پانچ سال کے دوران ایک مخصوص فرقے کے 42 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جو ابھی تک بازیاب نہیں ہوسکے۔
مزید پڑھیں: کراچی: انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کے لیے احتجاج
’ہمارا پرانا مطالبہ ہے کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کرکے سزا دی جائے اور اگر جرم نہیں کیا تو رہا کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جبری گمشدہ‘ افراد کے خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں، اُن کے بچے سکول میں تعلیم تک حاصل نہیں کر پا رہے، بعض بچوں نے اپنے باپ کی شکل تک نہیں دیکھی، کچھ لاپتہ افراد کی مائیں اُن کے انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور کچھ بستر مرگ پر اپنے پیاروں کے دیدار کی منتظر ہیں۔‘