پاکستانی ٹارچر سیلوں سے شہید نصیر بنگلزئی کا آخری پیغام – نوروز بلوچ

950

پاکستانی ٹارچر سیلوں سے شہید نصیر بنگلزئی کا آخری پیغام

تحریر۔ نوروز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید نصیر بنگلزئی مستونگ کے علاقے اسپلنجی کا رہنے والا تھا وہ بہادر اور وطن پہ جان قربان کرنے والا سرمچار تھا، انکی ہر وقت یہی کوشش تھی کہ وطن کی آزادی کی راہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ڈال دوں اور وطن اور اپنی ماں بہنوں کی عزت پہ ہاتھ ڈالنے والوں کو زیادہ سے زیادہ جہنم رسید کرسکوں۔ اسی سوچ نے اسے ایک عام شہری سے سرمچار بنا دیا اور اس نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی(UBA) جوائن کر لیا۔ سرمچار بنتے ہی اس سے اپنی ذمہ داریاں پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ سنبھال لیں۔

وہ شہید نورزیب کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ساتھی تھا کچھ وقت تک علاقائی کام سنبھالنے کے بعد جب تنظیم کے ساتھیوں نے انکی لگن، ایمانداری اور مخلصی کو دیکھی تو انہوں نے اسے شال کے کاموں کو سنبھالنے کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ بات تنظیمی سطح پہ طے ہونے کے بعد نصیر جان کو بتایا گیا تو نصیر جان نے خوشی کا اظہار کرکے اسے خوشی خوشی قبول کرلیا اور کچھ دنوں بعد شال کی طرف چل پڑا، شال میں نصیر جان نے قدم رکھتے ہی دن رات محنت کر کے اپنے لیئے کچھ خاص ساتھی اکھٹے کیا۔ ان میں سے ایک ساتھی اسکا کزن شہید نصیب اللہ عرف مانجی بھی تھا اور تحریکی کاموں کو سنبھالتے ہی قابض پہ ہر جگہ سے حملہ بول دیا۔ شال دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا اور قابض فوج لرز اٹھا اور قابض نے انہیں ہر طرح سے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر آزادی پسند سرمچار بہت ہی ہوشیار اور بہترین انداز میں اپنے ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے، جس سے دشمن کو شک بھی نہیں ہونے دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور کزن مانجی کے ساتھ ملکر بہت سے محاذوں پہ دشمن پہ قہر بنکر برسے اور انکے نیندیں حرام کیئے۔

ایک دن نصیر جان اور اسکا کزن مستونگ سے کوئٹہ کی طرف آرہے ہوتے ہیں تو ریاستی اہلکار اور خفیہ اداروں کے اہکار انہیں مستونگ سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پہ منتقل کرتے ہیں۔

کچھ دن بعد انکے کچھ کزنز اور اسکے چار بھائیوں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے، شہید نصیر اور اسکے کزن کو بہت اذیت دی جاتی ہے لیکن وہ مانتے نہیں ہیں، نہ کہ تنظیمی راز افشاں کرتے ہیں حالانکہ ان سے ریاستی اہکاروں کی طرف سے وعدے بھی کی جاتی ہیں کہ راز ظاہر کرنے اور اپنے ساتھیوں کو گرفتار کروانے پر انہیں رہا کیا جائیگا لیکن وہ غلامی کی زندگی اور غداری جیسے غلیظ چیز کو اہمیت دینے سے زیادہ شہادت کو ترجیح دیتے ہیں اور انکی یہ جرت مندانہ اور دلیرانہ سوچ نے انہیں آج تاریخ کا حصہ بنایا۔

بقول شہید کے ایک ساتھی کے کہ جب نصیر جان کو ٹارچر کیلئے کمرے سے لینے ایف سی اہلکار آئے تو اسکی آنکھیں ایک سفید پٹی سے باندھ کر اسکی ہاتھوں کو پیچھے کی طرف باندھ کر لیکر گئے، جب لیکر گئے تو نصیرجان کو بہت بے دردی سے مارنے لگے اور ایک ایف سی اہلکار اس سے بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہا تھا کہ اپنے ساتھیوں کا نام بتاو اور اپنے تنظیمی راز افشاں کرو مگر نصیرجان کے منہ سے بار بار ایک ہی جواب آتا تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا کسی کہ بارے میں نہ کہ مجھے کسی کا پتہ ہے، زیادہ مار کھانے کی وجہ سے نصیرجان بے ہوش ہوکر گر پڑتا تھا مگر ظالم اہلکار بے ہوشی کی حالت میں بھی اسے مار رہے ہوتے ہیں اور سخت سردی میں اسکی جسم پہ برف والا پانی ڈالا جاتا ہے اور جب وہ ہوش میں آتا ہے تو ایف سی اہلکاروں سے کہنے لگتا ہے جتنا مار سکتے ہوں مارو ابھی بہت ہی کم دن رہ گئے ہیں تمہارے بلوچستان میں، تم لوگ اپنے آخری سانسیں گن رہے ہو ہمارے گلزمین کو تم جیسے یزیدی فوج سے آزاد ہونا ہوگا ہمیں اپنے دھرتی کو تم جیسے بزدلوں اور مکاروں سے پاک کرنا ہوگا، تمہیں تمہارے ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ کیونکہ بلوچ نوجوانوں میں اب شعور آچکا ہے اب انہیں اپنی غلامی کا احساس ہوگیا ہے جس قوم کو اپنی غلامی کا احساس ہو جاتا ہے پھر وہ قوم زیادہ دیر تک غلام نہیں رہتی۔

یہ سن کر قابض اہلکاروں میں اور بھی غم و غصہ کی لہر دوڑتی اور وہ سیخ پا ہوکر شہید نصیر جان کو اور زیادہ اذیت دینے لگے کافی مارنے کے بعد نصیرجان کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے کمرے تک لیکر آتے ہیں اور اسے گرا کر مارنے لگے یہ کہتے ہوئے کہ ہر اس آنکھ کو نکال دینگے جو کہ بلوچستان کے آزادی کا خواب دیکھتا ہے، ہر اس زبان کو کاٹ دینگے جس زبان پہ آزادی کا لفظ آتا ہے، ہر اس ذہن کو ختم کرینگے جس میں بلوچستان کے آزادی کا خیال آتا ہے اور ہر وہ دل کو چیر دینگے جس میں آزادی کی خواہش اٹھتا ہو۔

یہ سن کر نصیر جان ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ دیوار میں دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بڑی مشکل سے دیوار پہ ٹیک لگا کر کھڑے ہوکر ان سے کہتا ہے ان آنکھوں کو تم نکال دو گے، ان سے آزادی کا خواب چھین لو گے، اس زبان کو تم خاموش کرو گے کہ آزادی کا دوبارہ اس پہ الفاظ نہ آئے یہ بتاو کہ میرے دل سے کیسے آزادی کا خیال نکالوگے، اس دل سے اپنے لیئے نفرت کو کیسے ختم کر سکو گے، چلو مان لیتے ہیں کہ تم مجھے مار کر میرے دل سے آزادی کے جوش و جذبے کو ختم کروگے، یہ تو بتاو کہ میرے فکر کو کیسے ختم کرسکوگے، ان نوجوانوں کے دل سے کیسے تحریک آزادی کے خواب کو ختم کر سکو گے، جو کہ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہیں، جو شہادت کو اپنا شان سمجھ کر دیدہ دلیری سے تمہارے بزدل اہلکاروں پہ ہر راستے پہ گھات لگا کر حملہ کر رہے ہیں اور تمہارے بزدل اہلکاروں کو جہنم رسید کرکے تمہیں روزانہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب تم جیسے ناپاکوں کیلئے اس پاک دھرتی پہ کوئی جگہ نہیں، یہ سن کر قابض اہکار غصہ سے سرخ پیلا ہو کر نکلتے ہیں اور نصیر جان گر پڑتا ہے۔

ایک قیدی اس کے پاس جاتا ہے اسکا سر اٹھا کر اپنے گود میں رکھتا ہے تو شہید نصیر کے منہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے اور شہید مسکراتے ہوئے اس سے کہنے لگتا ہے پتہ ہے، مجھے میرے مرنے کا تھوڑا بھی افسوس نہیں ہے نہ کہ مجھے موت کا خوف ہے بس افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے وطن کی آزادی کو دیکھے بنا جانا پڑ رہا ہے یہ آنکھیں آزادی کے پیاسے ہیں بہت لیکن یہ آزادی بنا دیکھے بند ہونے والے ہیں۔

اچھا سنو؟ مجھے پتہ ہے مجھے مار دیا جائیگا، پر تم چھوڑ دیئے جاؤگے، تم جب چھوٹ جاؤگے تو سب سے پہلے میرے دوستوں تک میرا پیغام پہنچانا کہ نصیر تم سب کو سلام کہہ رہا تھا، بعد سلام انہیں کہنا کہ تحریک آزادی نہیں رکنا چاہئے، میرے فکری دوست مجھ سمیت تمام شہیدوں، اسیروں اور ماں بہنوں سب کی امیدیں تم سے وابستہ ہیں۔ یہ تحریک آزادی میں کئی ہزار شہیدوں کا خون شامل ہے، یہ سلسلہ نہیں رکنا چاہئے آزادی عنقریب ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آزادی کو دیکھے بنا مجھے جانا پڑ رہا ہے، میں جسمانی طور پہ تحریک اور تم سب سے الگ تو ہو رہا ہوں مگر روحانی طور پر ہمیشہ تحریک اور تم سب سے جڑا رہونگا۔

اسکے بعد میرے گھر جاکر میرے ماں سے کہنا کہ میرے موت پہ میرے لئیے ماتم مت کرنا بلکہ خوشیاں منانا کیونکہ تیرا بیٹا وطن کی جہد میں ایک فکر لیکر اس دنیا سے جارہا ہے۔

اسکے بعد میرے ابو کو کہنا کہ اپنے بیٹے کی لاش پہ ہنستے ہوئے آنا تاکہ سب تمہیں دیکھ کر کہیں کہ یہ ہے شہید کا باپ جسے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے کوئی بھی دُکھ نہیں

میرے بھائیوں کو کہنا کہ ناز کرنا اپنے بھائی کی شہادت پہ کیونکہ آج کے بعد لوگ میرے نام سے تمہیں پہچاننگے کہ وہ دیکھو شہید نصیر کے بھائی جارہے ہیں اسکے بعد نصیر جان کی آنکھیں لگ جاتی ہیں کہ ایک ایف سی کا ٹیم پہنچ جاتی ہے اور نصیرجان کو اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اسکا لاش کوئٹہ قمبرانی روڑ پہ پھینک دیا جاتا ہے، جب لاش کو اٹھاتے ہیں گاؤں لاتے ہیں تو یزیدی لشکر نے شہید نصیر کو بہت بے دردی سے مار دیا ہوتا ہے، اسکے سر کو جگہ جگہ سے ڈرل کیا ہوتا ہے اور پاؤں کی ہڈیوں کو ڈرل مشین کے ذریعے جگہ جگہ سے سوراخ کیا ہوتا ہے اور سینے کو خنجر سے چیرا ہوتا ہے تاکہ لوگ دیکھ کر ڈر کے مارے تحریک آزادی سے کنارا کشی کریں، مگر ان درندوں کو کیا پتہ شہیدوں کے خون سے تحریکیں اور بھی پختہ ہونگے ہمارا فکر اور ارادے اور بھی مضبوط ہونگے اور آزادی طے ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔