لڑاکا طیاروں کے پائلٹ سے صحافت کا سفر طے کرنے والے محمد حنیف کی وجہ شہرت سابق صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کی موت کا سبب بننے والے طیارہ واقعہ سے متعلق لکھی گئی کتاب ’’آ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ ہے۔ گذشتہ ہفتے مصنف کو ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کی جانب سے ہتک عزت کا نوٹس بھی بھیجا جا چکا ہے۔
یہ ناول سال 2008 میں شائع ہوا تھا جس میں ضیاءالحق کے دور حکمرانی کے آخری دنوں اور سال 1988 میں بہاولپور کی فضائی حدود میں تباہ ہونے والے طیارے میں ان کی موت تک سے متعلق کی جانے والی سازشوں وقیاس آرائیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حال ہی میں اس ناول کا اردو ترجمہ ’’پھٹتے آموں کا کیس‘‘ کے نام سے سامنے آیا جس کے مترجم سید کاشف رضا ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مصنف محمد حنیف نے لکھا کہ پیر کو کچھ لوگوں نے ناول کے ناشر ’مکتبہ دانیال‘ کے دفتر پر چھاپہ مارا جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کے خفیہ ادارے کے اہل کار ہیں۔ انہوں نے ہمارے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے منیجر کو ڈرایا دھمکایا اور دفتر میں موجود ناول کی تمام کاپیاں لے گئے۔
کتاب میں سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے آخری ایام کا ذکر ہے جو بہاولپور کے ایک دورے کے بعد اسلام آباد واپسی کے دوران طیارہ حادثے میں کئی اعلیٰ فوجی افسران اور امریکی سفیر سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد قیاس آرائیاں کی گئیں کہ طیارے میں آموں کی پیٹیاں رکھوائی گئی تھیں جن میں بم تھا جو طیارے کے فضا میں بلند ہوتے ہی پھٹ گیا۔ محمد حنیف کی کتاب میں اس بات کو مزاح کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔
ناول ایکسپلوڈنگ کیس آف مینگوز کامن ویلتھ بک پرائز حاصل کر چکا ہے جبکہ اسے بُکر پرائز کی لونگ لسٹ اور گارڈین فرسٹ بک پرائز کے لیے شارٹ لسٹ بھی کیا گیا۔ گارڈین، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے ناول پر نمایاں تبصرے شائع کیے، اس کے علاوہ اسے شکتی بھٹ فرسٹ بک ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔