ناجد جان مجھے معاف کرنا – مرشد بلوچ

792

ناجد جان مجھے معاف کرنا

تحریر: مرشد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں قلم پکڑ کر کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں لیکن میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں، لکھوں تو کیا لکھوں، میں کوئی لکھاری نہیں ہوں کہ ایک بڑا آرٹیکل لکھ ڈالوں اور نہ میرے علم میں اُنکے فکر و سوچ، شعور و آگاہی کے مطلق اتنے الفاظ ہیں۔ اُو ناجد! کیا لکھوں تجھ پہ، تُو ایک راز ہے، سب سے پہلے تجھکو سلام، تم نے اس کم عمری میں اپنے سر زمیں سے عشق کی مثال قائم کی اور اپنے مادر بلوچستان کا قرض ادا کردیا۔

میں کچھ اپنے کسان سالیں سالونک ناجد بلوچ کی بارے میں لکھ رہا ہوں، ناجد بلوچ سنہ 1996 کو جآہو کوہڑو میں استاد دلمراد کے ہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم جآہو کوہڑو میں ایک پرائیوٹ سکول سن رائز انگلش میڈیم سکول کوہڑو سے شہید استاد علی جان جیسے استاد سے حاصل کی، لیکن چوتھی جماعت تک پڑھنے کے بعد تعلیم کو مزید جاری نہ رکھ سکے۔ سنہ 2012 میں آپ نے {BSO {Azad میں شمولیت کی، ایک اچھے ممبر کی حیثیت سے بی ایس او آزاد کے ہر اسٹڈی سرکل میں شرکت کرتے تھے۔ بلوچ قومی جہد آزادی اور قوم و قوم پرستی اور غلامی کے مطلق علم حاصل کیا۔ انہی سرکلوں میں آپ نے قوم، قومپرستی اور غلامی اور آزادی کا فرق سمجھا، کیوںکہ اس وقت جآہو کوہڑو میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے دوست جہد آزادی کے مطلق گھر گھر جاکر آزادی کا پیغام پہنچاتے رہے، ناجد بھی اس وقت بی ایس او آزاد کے ممبران کے ساتھ تھے۔

ناجد بلوچ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، سنہ 2018 میں آپ روزگار کی تلاش میں دبئی گئے لیکن چھ مہینے بعد سر زمین کی عشق نے انہیں دبئی سے واپس لایا اور واپس آتے ہی کچھ مہینوں بعد آپ نے ایک بلوچ مزاحمتی گل بلوچ لبریشن آرمی میں اپریل 2019 میں شمولیت کر کے ایک سچے، ایماندار اور مخلص دوست کی طرح اپنے فرض کو نبھانے اور ادا کرنے کیلے نکلے اور ہر وقت مجھ جیسے نادان دوست کو کہتا تھا کہ سر زمیں خون مانگتا ہے، تو خون دینے کیلے تیار ہو جاؤ۔ ایک دن یہ سر زمین کی قرض کو ادا کرناہے لیکن انکے ذہن میں ایک بڑا پلان تھا، وہ ہر وقت کہتا کہ میں اپنے دوست کامریڈ یوسف کرد عرف دودا کے ساتھ جآہو سورگر کے پہاڑوں میں جاکر وہاں بلوچ راجی آجوئی سنگر یعنی BRAS کے شکل میں باقی دوسرے پارٹیوں کے ہمراہ اکھٹے ہوکر پاکستانی افواج و دیگر ڈیتھ اسکواڈ کے بندوں کو سبق سکھاؤں گا۔ براس کے سرمچار ہر جگہ اور ہر علاقے میں دشمن کو نیست و نابود کر دینگے لیکن ناجد عرف سلیم 29 جنوری 2020 کے دن اپنے دوسرے دوستوں کےساتھ معمول کے گشت پر تھے، جب پاکستانی مذہبی ملاؤں اور فوج کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ جھڑپ میں یوسف کرد عرف دودا اور دولت رسول عرف باران میران عرف دادجان اور شکیل عرف ماما جنید شہید ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔