بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار 69 سالہ نصیر الدین شاہ نے بھارت کے موجودہ حالات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 70 سال بعد اب انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ وہ ’مسلمان‘ ہوکر بھارت میں نہیں رہ سکتے۔
ایوارڈ یافتہ اداکار نے بھارتی حکومت کی جانب سے دسمبر 2019 میں بنائے گئے متنازع شہریت قانون اور اس کے خلاف مظاہرے کرنے والے افراد اور طلبہ پر تشدد کیے جانے پر پہلی بار خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ وہ موجودہ حالات سے خوفزدہ تو نہیں مگر انہیں غصہ ضرور ہے۔
دی وائر کو دیے گئے خصوصی انٹرویو نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ 70 سال بعد بھی انہیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت پڑے کہ وہ ’مسلمان‘ ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی بھی ہیں اور پھر بھی ان کے ثبوتوں کو نہ مانا جائے تو وہ کہاں جائیں اور کیا کریں؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان کا بھارت میں 70 سال تک رہنا اور وہاں کام کرنا ان کے بھارتی ہونے کا ثبوت نہیں تو پھر وہ کیا کریں؟
اسی تناظر میں اداکار نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے خاندان نے آج تک یہ نہیں سوچا تھا کہ بھارت میں مسلمان ہوکر رہنا کوئی مشکل ہے تاہم اب انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ وہ ’مسلمان‘ ہوکر ہندوستان میں نہیں رہ سکتے۔
نصیر الدین شاہ کے مطابق اب انہیں ہر وقت اپنی شناخت اور اپنے مسلمان ہونے کا خوف لگا رہتا ہے اور ساتھ ہی وہ فکرمند رہنے لگے ہیں۔
متنازع شہریت قانون پر بات کرتے ہوئے نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ وہ اس حساس معاملے میں بولی وڈ کے کامیاب ترین اور بااثر ترین اداکاروں کی خاموشی پر حیران ہیں۔
اداکار نے کسی بھی اداکار کا نام لیے بغیر کہا کہ شاید وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ اس معاملے پر بات کریں گے تو وہ بہت کچھ کھو دیں گے۔