بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ گذشتہ دو دہائی سے جاری ہے جبکہ اس میں شہید غلام بلوچ و دوستوں کی شہادت کے بعد شدت دیکھنے میں آیا اور جبری گمشدگی کے شکار کئی افراد کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئیں ۔
گذشتہ دو روز کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ پندرہ افراد بازیاب ہوچکے ہیں ان لاپتہ افراد کی بازیابی کا سہرا بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اپنے سر لے رہی ہے جن کے رہنماوں کے مطابق گذشتہ دنوں آرمی ایکٹ کی حمایت بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور گوادر کے حوالے پالیسی سازی سے مشروط کی گئی تھی تاہم بی این پی کو بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (بی ایچ آر او) کے جنرل سیکریٹری عبداللہ عباس بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویئٹر پر اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یقیناً یہ ان خاندانوں کے لئے راحت کی بات ہے جن کے پیاروں کو رہا کیا گیا ہے لیکن سوال اب بھی یہی ہی ہے کہ انہیں کیوں اغواء کیا گیا تھا اور بغیر کسی ٹرائل کے ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا، جس سے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
It is indeed a matter of relieve for the families whose loved ones r released but the question remain the same why they were abducted & kept in torture cell without fair trial which not only violates national but international law & conventions.Secondly, what about those who were
— Abdulla Abbas Baluch (@AbdulahAbbass) January 15, 2020
عبداللہ عباس نے سوال اٹھایا ہے کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا؟ کیا مجرمان انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود مستشنیٰ رہیں گے؟
خیال رہے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے مطابق ان افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ جہاں چند افراد بازیاب ہورہے ہیں اسی تسلسل کیساتھ لوگوں لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بی ایچ آر او رہنماء کا کہنا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دیکر جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع کی راہ ہموار کی ہے، ان کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اسی جنرل باجوہ کے دور میں ہی 3505 افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے، 1216 افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے جو کہ صرف بلوچستان کے چند اضلاع کی اطلاعات ہیں جن تک ہماری رسائی ہے۔ بلوچستان کے اکثریت علاقوں میں رسائی ممکن نہیں ہے۔
The political party which claims the credit for the release of disappeared persons should also have the courage to take the responsibility of every individual who disappeared in mean time & should also demand the perpetrators to be brought to justice. @sakhtarmengal
— Abdulla Abbas Baluch (@AbdulahAbbass) January 15, 2020
عبداللہ عباس کا مزید کہنا ہے کہ ہزاروں لاپتہ افراد میں سے صرف چند کی رہائی جنرل باجوہ کے حق میں ووٹ دینے کا متوازی نہیں ہے، وہ سیاسی جماعت جو لاپتہ افراد کی رہائی کا سہرا اپنے سر لیتی ہے، اس میں اتنی بھی ہمت ہونی چاہیئے کہ وہ ہر اس فرد کی ذمہ داری اٹھائے جو اسی دورانیے میں غائب ہوئے ہیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کرنا چاہیئے۔