امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹاگوس نے ایک بیان میں کہا کہ عراق اور امریکا کے درمیان بحث و مباحثے اور بات چیت کے لیے اور کئی موضوعات ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت ہے۔ یہ مذاکرات صرف سیکیورٹی سے متعلق نہیں بلکہ مالی، اقتصادی اور سفارتی شراکت پربھی ہوسکتے ہیں۔
واشنگٹن کی طرف سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف عراقی وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ وہ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے وفد بغداد بھیجیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق کی طرف سے یہ مطالبہ جمعرات کی شام وزیر اعظم عبد المہدی اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مابین ٹیلیفون پر کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عراقی وزیر اعظم کو فون کیا تھا۔ اس دوران بات چیت کرتے ہوئے عراقی وزیراعظم نے عراق میں امریکی فوج کی کارروائیوں پر احتجاج کیا۔
عراقی وزیراعظم نے حالیہ دنوں میں امریکا کی طرف سے عراق میں کی گئی فضائی کارروائیوں پر احتجاج کیا اور کہا کہ عراق اپنی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزیوں کومسترد کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق اپنے ملک میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی فوج کے حملے میں ہلاکت کو غیر ذمہ دارانہ اقدام اور عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔
انہوں نے امریکی وزیرخارجہ پر زور دیا کہ امریکا ایک وفد عراق بھیجے جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر امریکی فوج کے انخلاء کا طریقہ کار وضع کرے کیونکہ عراقی پارلیمنٹ ملک سے تمام غیرملکی فوجوں کو نکالنے کا مطالبہ کرچکی ہے۔
خیال رہے کہ تین جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب امریکا کے ڈرون طیارے کے ذریعے کیے گئے حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی الحشد ملیشیا کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس سمیت کئی شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد نہ ایران اور امریکا ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں آگئے تھے بلکہ عراق اور امریکا کے درمیان بھی سخت کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔